سعودی عرب میں مقیم کئی لاکھ غیرملکی کارکن پچھلے ایک ہفتے سے نئی فکر میں مبتلا ہیں۔ وزیر محنت نے بیان دیا ہے کہ مملکت میں مقیم غیر ملکیوں کو صرف چھ سال تک کام کرنے کی اجازت ہوگی ۔ اس مدت کے بعد ان کے ورک پرمٹ کی تجدید نہیں ہو گی۔ بالفاظ دیگر اب کوئی بھی غیر ملکی جو سعودی سرزمین پر چھ سال تک کام کرچکا ہوگا، اسے مزید قیام کے بجائے اپنے وطن واپس جانا ہوگا۔اس اقدام کا مقصد سعودی شہریوں کے لئے زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔
عربی اخبار الحیات کے مطابق وزیر محنت عدیل فکہی کا کہنا ہے کہ اس وقت ہزاروں سعودی نوجوان بے روزگار ہیں لہذا بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے مسئلے پرقابو پانے کے لئے حکومت اور نجی شعبے کے درمیان مضبوط شراکت داری وقت کا اہم تقاضہ ہے ۔
تاہم عدیل فکہی نے یہ نہیں بتایا کہ اس فیصلے پر کب سے عمل درآمد ہوگااور آیا اس کا اطلاق تمام غیرملکی ورکرز پر ہوگا یا صرف کچھ مخصوص شعبوں میں خدمات انجام دینے والے ورکرز پر۔
سعودی عرب تیل کے ذخائر رکھنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ یہی دنیا کو سب سے زیادہ تیل درآمد کرنے والا ملک بھی ہے تاہم اس کے شہریوں میں بے روزگاری کی شرح بہت تیری سے بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یہ شرح سالانہ دس اعشاریہ پانچ فیصد ہے ۔ اس تعداد میں اٹھائیس فیصد خواتین جبکہ 40فیصد ہائی اسکول گریجویٹس ہیں۔
فکہی کے مطابق سعودی عرب میں اس وقت اسی لاکھ غیر ملکی ورکرز ہیں جن میں سے ساٹھ لاکھ نجی شعبے میں خدمات انجام دہ رہے ہیں۔ سعودی عرب سے سالانہ ایک سو ملین ریال یعنی ستائیس کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ بیرون ملک منتقل ہوتا ہے ۔
اگرچہ سعودی عرب میں بے روزگاری سے متعلق اعداو شمار بے تواتر کے ساتھ منظرعام پر نہیں آتے کیوں کہ اسے یہاں حساس مسئلہ تصور کیا جاتا ہے لہذا اخبارات سرکاری ہدایات کے پابند ہوتے ہیں۔
رواں سال مارچ میں سعودی فرمانرواں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے 93 کروڑ ڈالر کے عوامی منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ اس سے قبل فروری میں بھی 37 کروڑ ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا۔ ان اقدامات کا مقصد عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی تشکیل نو تھا۔
خلیجی ممالک میں بے روزگاری کی اہم وجہ تعلیم کا بوسیدہ نظام ہے ۔ وہاں آج بھی انگریزی کے بجائے عربی گریجویٹس کی تعداد بہت زیادہ ہے جو پرائیویٹ فرمز میں بہ مشکل ہی اپنے لئے جگہ بناپاتے ہیں۔ نجی ادارے بھی ایشیاء سے تعلق رکھنے والے افراد کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ایشیائی باشندے کم تنخواہ پر زیادہ کام کرتے ہوئے بھی نہیں ہچکچاتے ۔
سعودی شہری زیادہ تر سرکاری اداروں میں کام کرتے ہیں لیکن یہاں سرکاری ملازمت دیگر خلیجی ممالک مثلاً کویت کی طرح خودبخود نہیں ملتی جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ اس وقت موجودہ آبادی ایک کروڑ نوے لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔
حکومت نے 1994ء میں سعودیسیشن کے نام سے ایک منصوبہ ترتیب دیا تھا جس کے تحت نجی شعبے میں سعودی شہری ملازمین کا کوٹہ طے کیا گیا تھا تاہم یہ منصوبہ نجی شعبے کی عدم دلچسپی کے باعث ناکام ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ نجی شعبے میں آج بھی سعودی شہریوں کی تعداد دس فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق ستر فیصد سعودی شہریوں کی عمر تیس سال سے بھی کم ہے جبکہ آبادی بڑھنے کی سالانہ شرح دواعشاریہ چار فیصد ہے ۔
سعودی حکومت نے سال 2008ء میں روزگار بڑھانے اور ہزاروں نئی آسامیاں پیدا کرنے کی غرض سے چارسو بلین ڈالر کی خطیر رقم سے پنج سالہ منصوبہ ترتیب دیا تھا لیکن اس کے ابھی تک کوئی حوصلہ افزا نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔