یہ دوسری عالمی جنگ کا دور تھا جب 24 فروری 1944 کو برطانیہ کی بندرگاہ برکن ہیڈ سے ایک مال بردار بحری جہاز ایسے سفر پر روانہ ہوا جس کے اختتام پر ایک تاریخی تباہی اس کی منتظر تھی۔
برطانیہ کے سرکاری 'نینشل آرکائیو' کے مطابق سات ہزار ٹن سامان کی گنجائش رکھنے والا فورٹ اسٹائکن نامی یہ بحری جہاز کینیڈا میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ بنیادی طور پر ایک مرچنٹ شپ تھا لیکن جنگی حالات کی وجہ سے اس پردفاعی آلات بھی نصب کیے گئے تھے۔
اس جہاز پر لادے گئے سامان میں 1395 ٹن سے زائد دھماکہ خیز مواد، ٹورپیڈوز، بارودی سرنگوں کے علاوہ ضروریات کی کئی دیگر اشیا بھی شامل تھیں۔ تیل، لکڑی اور ایندھن کے ساتھ ساتھ اس جہاز پر 31 کریٹس میں کم و بیش 13 سے 14 کلو سونا بھی لادا گیا تھا جس کی مالیت اس دور کے مطابق آٹھ لاکھ 90 ہزار برطانوی پاؤنڈ تھی۔
یہ بحری جہاز 30 مارچ 1944 کو کراچی پہنچا جہاں اس پر لدا بہت سا سامان اتار لیا گیا اور یہاں سے اس پر روئی کی سینکڑوں گانٹھیں بھی لاد دی گئیں۔
برطانوی حکومت کی اس دور کی دستیاب دستاویزات کے مطابق کراچی میں جہاز پر روئی کی جو گانٹھیں لادی گئی تھیں انہیں جہاز میں رکھے ڈائنامائٹ سے ایک درجہ نیچے رکھا گیا تھا۔ اس فیصلے کی وجہ تو بیان نہیں کی گئی لیکن اس ترتیب کی وجہ سے آتش زدگی کا خطرہ کئی گنا بڑھ گیا تھا۔
کراچی سے یہ سامان لے کر فورٹ اسٹائکن 12اپریل کو ممبئی کی بندرگاہ وکٹوریا ڈاک پر لنگر انداز ہوا۔ 13 اپریل سے جہاز پر سامان اتارنے کا کام شروع ہوا۔ اس دن ماہی گیری کا کچھ سامان اور تیل کے ڈرم ہی جہاز سے اتارے گئے۔
ان ڈرمز میں سے بعض سے تیل کا رساؤ ہورہا تھا لیکن ڈرم اتارنے میں تاخیر کی گئی اور اس جانب توجہ نہیں دی گئی کہ جہاز میں گولہ بارود کے علاوہ بھاری مقدار میں روئی کی موجودگی کی وجہ سے تیل کا رساؤ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
جب دھواں اٹھنے لگا
برطانیہ کے نیشنل آرکائیو کے مطابق 14 اپریل 1944 بمبئی کی بندر گاہ پر ایک مصروف دن تھا۔ وکٹوریہ ڈاک کے ساتھ ہی واقع پرنسز ڈاک پر بھی دس جہاز لنگر انداز ہوچکے تھے۔
فورٹ اسٹائکن کے کپتان نے بندرگاہ کے عملے کو تیل کے رساؤ کے بعد مرمت کا کام کرنے کے لیے کہا تھا لیکن اس میں مسلسل تاخیر ہورہی تھی۔اسی دوران جب دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوا تو 12 بج کر 45 منٹ کے آس پاس جہاز کے کچھ حصوں سے دھواں اٹھتا دکھائی دیا۔
ڈیڑھ بجے تک پولیس نے بھی جہاز سے یہ دھواں اٹھتے ہوئے دیکھ لیا تھا لیکن ان کا خیال تھا کہ صورتِ حال جہاز کے عملے کے قابو میں ہے۔لیکن پونے دو بجے تک صورتِ حال تشویش ناک ہوچکی تھی۔ جہاز سے سامان اتارنے کے لیے جانے والے مزدوروں کے ایک فورمین محمد تقی نے دیکھا کہ فورٹ اسٹائکن کےایک حصے میں آگ بھڑک اٹھی ہے۔
فورمین نے فوری طور پر عملے کو مطلع کیا۔ بندرگاہ پر ایمرجنسی الارم بجنے لگے، جہاز کے عرشے اور بندرگاہ پر بھگدڑ مچ گئی۔
جہاز کے سیکشن لیڈر نے یہ صورت حال دیکھتے ہوئے آگ پر قابو پانے کی کوشش کے ساتھ اپنے ایک ماتحت کو کہا کہ وہ فائر بریگیڈ کنٹرول روم سے رابطہ کرے اور انہیں 'نمبر ٹو' کا میسج دے۔ اس پیغام کا مقصد یہ تھا کہ آگ بجھانے والے عملے کو مطلع کردیا جائے کہ جس جہاز میں آتشزدگی ہوئی ہے اس پر دھماکہ خیز مواد بھی موجود ہے۔
'نمبر ٹو' پیغام نہ مل سکا
کچھ ہی دیر بعد آگ بجھانے والی گاڑیوں کی گھنٹیاں سنائی دینے لگیں۔ انہوں نے اپنے پروٹوکول کے مطابق بندرگاہ سے جہاز پر آگ بجھانے کے لیے پانی کی تیز دھار برسانا شروع کی۔
دن ڈھلنے لگا لیکن آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ اس دوران 60 کے قریب فائر فائٹرز نے جہاز پر آکر آگ بجھانے کی کوشش کی لیکن انہیں کامیابی نہیں مل سکی۔اس دوران وہ اہم میسج 'نمبر ٹو' نظر انداز ہوچکا تھا جس میں آگ بجھانے والے عملے کو خبردار کیا جانا تھا کہ جہاز پر دھماکہ خیز مواد بھی موجود ہے۔
جہاز کے سیکشن لیڈر نے اپنے جس ماتحت کو یہ پیغام فائر فائٹر کنٹرول روم تک پہنچانے کے لیے کہا تھا وہ افراتفری اور بھگڈر میں یہ پیغام آگ بجھانے والے عملے کو نہیں دے سکا تھا۔یہی وجہ تھی کہ جب جہاز کے اس حصے میں جہاں روئی موجود تھی آگ پر قابو پایا جارہا تھا۔ کسی کا دھیان اس جانب گیا ہی نہیں کہ اس کے نچلے حصے میں ڈائنامائٹ موجود ہے اور اسے وہاں سے فوری نکالا جانا چاہیے۔
روئی کی گانٹھوں میں لگنے والی آگ کے شعلے اب بے قابو ہوچکے تھے۔ اس لیے فائر بریگیڈ کے عملے کے ساٹھ افراد کو جہاز سے اتار لیا گیا تھا۔ جہاز پر دھوئیں کے بادل مزید گاڑھے ہورہے تھے کہ چار بج کر سات منٹ پر ایک ہولناک دھماکہ ہوا۔
اس قیامت خیز دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس نے ہزاروں ٹن وزنی جہاز فورٹ اسٹائکن کو دو ٹکروں میں تقسیم کردیا اور اس کا ایک حصہ پانی سے زمین پر لا پٹخا۔
جہاز میں موجود کم و بیش 13 کلو سونے کی اینٹیں دور جاگریں۔اس تباہی پر ایک بھارتی اخبار نے تبصرہ کیا تھا کہ اس روز بمبئی میں آسمان سے موت اور سونا ایک ساتھ برس رہے تھے۔
جہاز کے قریب قریب ہر شے تباہ و برباد ہو چکی تھی۔ بندرگاہ پر لنگر انداز 11 جہازوں کو شدید نقصان پہنچا تھا اور دھماکے کی وجہ سے جہاز کے آس پاس کام کرنے والے تقریباً سبھی لوگ مارے گئے تھے۔ اس واقعے میں ہونے والی ہلاکتوں کی مختلف تعداد بتائی جاتی ہے جو 800 سے 1300 کے درمیان ہے۔
بیروت جیسے حالات
بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق 1944 میں ہونے والے اس واقعے کا موازنہ بیروت کی بندرگاہ پر چار اگست 2020 کو ہونے والے دھماکے سے کیا جاتا ہے۔
واقعے کے بعد 17 اپریل کے شمارے میں اخبار نے لکھا کہ جہاز میں دوسرے دھماکے سے زیادہ تباہی اور جانی نقصان ہوا۔ پہلی مرتبہ آتشزدگی اور دھواں اٹھنے کے بعد ہلکے پھلکے دھماکے کی آواز پیدا ہوئی تھی جسے سن کر بندرگاہ پر موجود کئی لوگ جہاز کے قریب آگئے تھے۔ اسی لیے جب دوسرا دھماکہ ہوا تو اس سے بھاری جانی نقصان ہوا۔
دوسرے دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ شہر میں دور دور تک عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے، قریب سڑکوں پر گاڑیاں الٹ گئیں اور بندرگاہ سے اڑنے والے ملبے نے کئی افراد کو زخمی کیا۔
اخبار کی 18 اپریل 1944 کے بعد کے شماروں سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی روز تک شہر میں کاروبارِ زندگی معطل رہا۔ اس واقعے کی شہر پر ایسی ہیبت طاری تھی کہ کوئی چور یا لٹیرا بھی بندرگاہ کی تباہی اور اس کے بعد ہونے والی بھگدڑ کے بعد قریبی سڑکوں پر بکھرا قیمتی سامان اٹھانے کی ہمت نہیں کرپایا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق اس دور کی نوآبادیاتی حکومت نے واقعے سے متعلق رپورٹنگ میں کئی رکاوٹیں حائل کیں۔ اخبار کے مطابق فورٹ اسٹائکن میں دھماکے سے ہونے والے نقصان اور حادثے کے اسباب کے بارے میں اس لیے بہت سی تفصیلات سامنے نہیں آسکیں کہ حکومت نے کئی روز تک اخباری نمائندوں کو جائے حادثہ تک رسائی نہیں دی۔
برطانوی سرکاری دستاویزات میں بھی اس واقعے کو آتش زدگی کا واقعہ ظاہر کیا گیا ہے لیکن آگ بھڑکنے کے اسباب کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ جب کہ اس واقعے سے متعلق تاریخی مواد میں اس بات کا شبہہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ حادثہ بنیادی طور پر عالمی جنگ میں برطانیہ کے حریف جاپان کی خفیہ کارروائی کا نتیجہ تھا۔
اس دعوے کے بارے میں ٹھوس شواہد تو نہیں ملتے البتہ بحری جہاز میں آتشزدگی کی اسباب آج بھی ایک راز ہی ہیں۔ 1968 کے بعد سے 14 اپریل کو اس واقعے کی مناسبت سے ممبئی میں فائر فائٹرز کا دن منایا جاتا ہے۔