حماس نے جن یرغمال افراد کو رہا کیا ہے ان میں شامل ایک خاتون نے کہا ہے کہ قید کے دوران ابتدا میں تو اچھی خوراک فراہم کی جاتی تھی ۔ لیکن جب غزہ میں حالات خراب ہونے لگے تو صورتِ حال بدتر ہونے لگی اور بعض لوگوں کو بھوکا بھی رہنا پڑا۔
ان کے مطابق انہیں ایک ایسے کمرے میں رکھا گیا تھا جہاں دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا تھا جب کہ انہیں 50 دن تک پلاسٹک کی ایک کرسی پر چادر لے کر سونا پڑا تھا۔
خبر رساں ادارے "ایسوسی ایٹڈ پریس" کے مطابق حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے میں لگ بھگ 240 افراد کو یرغمال بنایا تھا اور اب اسرائیل سے معاہدے کے تحت انہیں مرحلہ وار رہا کیا جا رہا ہے۔رہا ہونے والےافراد میں 78 سالہ روتی مندر بھی شامل ہیں جنہوں نے اسرائیل کے 'چینل 13' کو انٹرویو دیا ہے۔
'اے پی'کے مطابق انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنا سارا وقت یرغمال بیٹی کیرن روتی اور نواسے احد مندر زکری کے ہمراہ گزارتی تھیں۔ ان کے نواسے کی نویں سالگرہ حماس کی قید میں گزری ہے۔
روتی مندر کا انٹرویو پیر کو نشر کیا گیا جس میں انہوں نے غزہ میں حماس کی قید میں گزرے وقت کا احوال بتایا۔
حماس نے سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملے کے دوران روتی مندر، ان کے شوہر 78 سالہ اور، بیٹی اور نواسے کو یرغمال بنا لیا تھا جب کہ ان کے بیٹے کی اسی حملے میں موت ہوگئی تھی۔ ان کے شوہر اب بھی غزہ میں حماس کے پاس یرغمال ہیں۔
انٹرویو میں روتی مندر کا کہنا تھا کہ وہ قید کے دوران مرغی کا گوشت چاولوں کے ساتھ کھاتےتھے جب کہ ڈبوں میں بند کھانا اور پنیر بھی دیا جاتا تھا۔
ان کے مطابق ہمارے حالات ٹھیک تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حماس کے جنگجو انہیں صبح اور شام کے اوقات میں چائے دیتے تھے جب کہ بچوں کو کھانے کے لیے میٹھی اشیا د ی جاتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ کھانے پینے کی فہرست اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوئی جب غزہ میں صورتِ حال بہتر نہیں رہی اور لوگوں کو بھوکا بھی رہنا پڑا۔
سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور شمالی غزہ پر بمباری شروع کر دی تھی۔ بعد ازاں شمالی غزہ کو مکمل طور پر خالی کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔ اس دوران غزہ کی مصر کے ساتھ قائم سرحدی گزرگاہ رفح سے غذائی اشیا اور دیگر ضروریات کی آمد رک گئی تھی۔ اسی وجہ سے غزہ میں شہریوں کو ایندھن، خوراک اور بنیادی اشیا کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔
Your browser doesn’t support HTML5
روتی مندر کو چار دن قبل جمعے کو حماس نے رہا کیا تھا۔ جب وہ واپس آئیں تو ان کی جسمانی حالت بہتر تھی۔ غزہ میں حماس کی تحویل سے رہا ہونے والے بیشتر افراد جسمانی طور پر اچھی حالت میں ہیں۔
البتہ رہا ہونے والی ایک 84 سالہ خاتون کی حالت شدید خراب تھی جو کہ اب اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق حماس کی تحویل میں ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہوئی جس سے ان کی حالت بگڑی ہے۔
اسی طرح ایک اور یرغمالی کا واپسی پر آپریشن ہوا ہے۔
چار دن قبل حماس کی تحویل سے واپس آنے والے زیادہ تر یرغمالی اب تک منظرِ عام سے دور ہیں۔ ان میں زیادہ تر کے حوالے سے معلومات ان کے اہلِ خانہ سے سامنے آ رہی ہیں۔ لیکن وہ بھی زیادہ تفصیلات بتانے سے گریز کر رہے ہیں۔روتی مندر نے بھی دیگر رہا ہونے والے یرغمالوں کی طرح بتایا کہ وہ لوگ پلاسٹک کی کرسیوں پر سوتے تھے۔
ان کے بقول ان کو ایک چادر دستیاب تھی جس کو اوڑھ کر وہ سوتی تھیں۔ البتہ کئی یرغمالی ایسے تھے جن کو یہ بھی دستیاب نہیں تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہاں موجود لڑکے رات کو دیر تک جاگتے تھےاور آپس میں گفتگو کرتے رہتے تھے۔ کچھ لڑکے زمین پر سو جاتے تھے۔ حماس کی تحویل میں موجود بعض لڑکیاں روتی بھی تھی۔
انہوں نے کہا کہ وہ صبح تاخیر سے بیدار ہوتی تھیں تاکہ کچھ وقت گزر جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جس کمرے میں ان کو قید کرکے رکھا گیا تھا اس کے سے حوالے روتی مندر نے کہا کہ وہاں ان کا دم گھٹتا تھا جب کہ یرغمال افراد کو اجازت نہیں تھی کہ وہ کھڑکیوں کے پردے ہٹا سکیں۔ لیکن انہوں نے کوشش کرکے ایک کھڑکی کھول لی تھی۔
کھڑکی کھولنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت مشکل کام تھا۔
واضح رہے کہ روتی مندر کا انٹرویو ایسے وقت میں آیا ہے جب اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی کا معاہدہ مزید دو دن آگے بڑھ گیا ہے۔ اس دوران حماس مزید یرغمال افراد اور اسرائیل جیلوں میں قید فلسطینیوں کو رہا کریں گے۔ جنگ بندی کے دوران غزہ میں مزید امداد بھی پہنچ سکے گی۔ فریقین میں معاہدے کے تحت ایک یرغمالی کے بدلے تین فلسطینی اسرائیلی جیلوں سے رہا ہوں گے۔
حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے حوالے سے انٹرویو کے دوران روتی مندر نے کہا کہ سات اکتوبر کو ان کو اہلِ خانہ کے دیگر افراد کے ہمراہ گاڑی میں سوار کرکے غزہ منتقل کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ گاڑی میں ان کے اوپر ایک کمبل ڈال دیا گیا تھا تاکہ وہ وہاں موجود عسکریت پسندوں کو نہ دیکھ سکیں۔
روتی مندر کو حماس کی تحویل میں ایک عسکریت پسند سے، جو ریڈیو پر خبریں سن رہا تھا، معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا سات اکتوبر کے حملوں میں مارا جا چکا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہیں امید تھی کہ وہ ایک دن لازمی طور پر آزاد ہو جائیں گی۔
چینل 13 کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ میں پر امید تھی اور یہ جانتی تھی کہ اگر ہمیں یہاں لایا گیا ہے تو ہم رہا بھی ہوں گے۔ اور اگر ہم زندہ ہیں تو ایسا ہوگا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حماس نے اسرائیل پر حملے کے دوران جس کو چاہا قتل کر دیا تھا۔
اسرائیل کے دو نشریاتی اداروں چینل 13 اور چینل 12 نے رپورٹ کیا تھا کہ غزہ میں حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار یحییٰ السنوار نے سرنگوں کے اندر یرغمالوں سے ملاقات کی تھی اور ان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ انہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
اسرائیل اور حماس میں عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت صرف بچوں اور خواتین کو دونوں جانب سے رہا کیا جا رہا ہے۔
اس تحریر میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔