عبایا پر پابندی: عبایا فیشن ہے یا مذہبی پہناوا، فرانس میں نئی بحث

پیرس کی سڑک پر ایک خاتون عبایا میں ملبوس۔ فوٹو اے ایف پی 28 اگست 2023

فرانس کے وزیرِ تعلیم گیبرئل اٹل نے پیر کے روز کہا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں طلباء کو قمیص یا عبایا پہننے کی اجازت نہیں ہوگی۔پیرس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران وزیرِ تعلیم اٹل نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ایسے طلباء کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو مشرقِ وسطیٰ کی طرز کا عبایا یا قمیص پہنتے ہیں۔ اور اس سے فرانس کے سیکیولرازم کے قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

ان قوانین کے تحت کھلے بندوں ایسا لباس پہننے کی پابندی ہے جس سے کسی مذہب کی عکاسی ہوتی ہو۔

گاؤن کی طرز کاعبایا مسلم خواتین گھر سے باہر جاتے ہوئے پہنتی ہیں جب کہ قمیص مسلم مردوں کا پہناوا ہے۔

وزیرِ تعلیم اٹل نے یہ پابندی ایسے میں لگائی ہے جب موسمِ گرما کی تعطیلات کے بعد تعلیمی ادارے دوبارہ کھل رہے ہیں اور طلبا کلاسوں میں واپس آ رہے ہیں۔

اٹل نے کہا کہ یہ اسکولوں کی آزمائش ہے۔

انہوں نے کہا، " گزشتہ چند مہینوں میں ہمارے سیکیولر قوانین کی خلاف ورزی میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر عبایا اور قمیص کے استعمال میں جو مذہبی علامت کے حامل ہیں۔"

فرانسیسی حکومت کے اس فیصلے نے ملک کے سیکیولر قوانین اور مسلم اقلیت کے ساتھ سلوک پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

اس سے پہلے 2004 میں فرانس نے ملک کے سیکیولر قوانین کی بنیاد پر، جو ملکی اداروں کی غیر جانبداری کی ضمانت ہیں، طلباء کے لیے ایسے کسی لباس کی ممانعت کردی تھی جس سے کسی مذہب کے پیروکار ہونے کا اظہار ہوتا ہو۔

بعد ازاں فرانس میں حجاب، پگڑی اور یہودیوں کی طرز کی کیپہ پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

فائل فوٹو

لیکن اسکول کے حکام عبایا پہننے پر پابندی عائد نہیں کر سکے تھے جو فیشن اور مذہب کے درمیان کوئی لباس گردانا جا رہا تھا۔

مگر اب فرانس کے 34 سالہ وزیرِ تعلیم گیبرئیل اٹل نے جنہیں اپنا منصب سنبھالے ابھی صرف دو ماہ ہوئے ہیں، ایسا کوئی لباس پہننے پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے جو کسی مذہب کی علامت ہو سکتا ہے۔

ان کے اس اقدام کو اس نظر سے بھی دیکھا جا رہا ہے کہ وہ لوگوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے قدامت پسندوں کو خوش کر رہے ہیں۔

فرانسیسی حکومت کےترجمان اولیویے ویواں نے پیر کے روز اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ عبایا "بلاشبہ" ایک مذہبی پہناوا ہے اور لوگوں کو اسلام کی جانب لانے کی تبلیغ کے مترادف ہے جو ایک " سیاسی حملہ" بھی ہے۔

بی ایف ایم ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے ویواں نے کہا، " اسکول سیکیولر ہیں۔ ہم ایسا بہت نرمی مگر بہت مضبوطی سے کہہ رہے ہیں۔یہ وہ جگہ نہیں ۔(جہاں مذہبی لباس پہنا جائے)

SEE ALSO:

فرانس میں سیکیورٹی کا نیا بل: جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے حقوق کی خلاف ورزی؟

عبایا مذہبی پہناوا یا محض فیشن؟

عبداللہ ذکری "فرینچ کونس آن مسلم ریلیجن"(CFCM), کے نائب صدر ہیں۔ انہوں نے اتوار کے روز بی ایف ایم ٹی وی کو بتایا،" عبایا کوئی مذہبی لباس نہیں بلکہ یہ فیشن کی ایک قسم ہے۔"

ہوسکتا ہے عبایا پہننے والی خواتین کی اکثریت عبداللہ ذکری کے اس بیان سے اتفاق نہ کرے کیونکہ اگر مشرقِ وسطیٰ کی بات کی جائے تو بلا شبہ یہ مسلمان خواتین کا لباس ہے جو وہ گھر سے باہر جاتے ہوئے استعمال کرتی ہیں۔

گھر سے باہر ایک خاتون کا خود کو ڈھانپ کر نکلنے کا تصور عبایا اور برقعے ہی سے جڑا ہے۔ فیش سے متاثر ہو کر اگر اس پر نقش و نگار بنا لیے جائیں یا ایمبرائیڈری سے سجا لیا جائے تو شاید اسے فیشن بھی کہا جا سکتا ہے مگر اس کی اصل روح عورت کا خود کو، اپنے اصل لباس کو ڈھانپنا ہی ہے۔

فیشن کی بات کی جائے تو حال ہی میں نو عمر لڑکیوں کے عریاں بلاؤز پہننے پر بھی فرانس میں ایک بحث چھڑگئی تھی جب کہ وہاں صرف بعض نجی اسکولوں میں ہی طلباء کے لیے یونیفارم کی پابندی ہے۔

یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ فرانس کی وزارتِ تعلیم نے عبایا پر جو پابندی عائد کی ہے وہ تحریری طور پر جاری نہیں کی گئی ہے اور اس کا اطلاق فوری نہیں ہوگا۔

مبصرین کہتے ہیں کہ اس کے خلاف اپیل ہو سکتی ہے اور اسکول حکام کے لیے یہ فیصلہ کرنے میں دشواریاں پیش آسکتی ہیں کہ ایک گاؤن نما لباس فیشن کی کوئی ذاتی چوائس ہے یا مذہبی وابستگی کا اظہار۔

عبایا کی تاریخ کیا کہتی ہے؟

اگرچہ یہ معلوم نہیں ہے کہ پہلے پہل عبایا کا استعمال دنیا کے کس حصے میں ہوا تاہم بعض مؤرخین کے مطابق اس کی ابتداء چار ہزار سال قبل میسو پوٹومیا یا قدیم عراقی تہذیب سے ہوئی اور سعودی عرب میں یہ پہناوا 80 سال پہلے عراق اور ایران سے سفر کرکے سعودی عرب پہنچنے والے مسافر اپنے ساتھ لے کر آئے۔

سعودی خواتین عبایا میں ملبوس فائل فوٹو

ویب سائٹ " اورئینٹ499" کے مطابق صحرا کےخانہ بدوشوں نے اسے فوراً اپنا لیا کیونکہ وہ پہلے ہی لمبا ڈھیلا ڈھالا لباس پہننے کے عادی تھے۔

اور اب خلیج تعاون کونسل یا جی سی سی میں شامل ممالک یعنی بحرین، کوویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں یہ تہذیب اور مذہب کی علامت کے ساتھ ساتھ قومی لباس کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

فرانس کا اقدام اور سیاسی بحث

اگرچہ فرانس میں اس اقدام کے حامی، اسکولوں کو مذہبی دباؤ سے آزاد ایک غیرجانبدار زون رکھنا چاہتے ہیں، تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ اس سے مسلمان ہدف بنائے بنائے جا رہے ہیں اور ایک انتہائی معمولی بات کو دائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔

فرانس کی وزارتِ تعلیم نے گزشتہ ماہ، مئی میں حاصل کیے گئے اعدادو شمار جاری کیے جن سے ظاہر ہرتا ہے کہ 60000 سرکاری اسکولوں میں سے صرف 438 اسکولوں کو ایسی شکایات موصول ہوئیں جو سیکیولر ضابطوں کی ممکنہ خلاف ورزی کے زمرے میں آسکتی تھیں جب کہ ان میں سے نصف کا تعلق مذہبی لباس پہننے سے تھا۔

فرانس میں انتہائی بائیں بازو کے سیاسی لیڈر یاں لک میلانشاں نے ایکس( سابق ٹوئٹر) پر لکھا،" طلباء کے کلاسوں میں واپس آنے کے عمل کو ایک نئی فضول مذہبی لڑائی کے ذریعے، جو خواتین کے لباس سے متعلق مکمل طور پر مصنوعی ہے، سیاسی دھڑے بندی کا شکار دیکھنا افسوسناک ہے۔"

فرانس میں حجاب پر پابندی کے بعد احتجاج فائل فوٹو

انہوں نے مزید کہا، " نجانے شہری امن اور حقیقی سیکیولرازم کب آئے گا جو لوگوں کو مشتعل کرنے کے بجائے باہم یکجا کرے۔"

فرانس میں قدامت پسند سیاستدان حالیہ برسوں میں زور دیتے رہے ہیں کہ مذہبی علامت رکھنے والے لباس کو یونیورسٹیوں تک نہیں پہنچنا چائیے حتیٰ کہ والدین بچوں کو اسکول سے لینے آئیں تو بھی مذہبی نوعیت کا لباس نہ پہنیں۔

انتہائی دائیں بازو کی قانون دان اور 2022 میں فرانس کی صدارتی امیدوار میرین لا پن نے تو اپنی انتخابی مہم ہی حجاب اور نقاب پر پابندی کے ساتھ چلائی تھی۔

فرانس کا قانون شہریوں کو مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے مگر ساتھ ہی ریاست اور ریاستی ملازمین کو پابند بھی کرتا ہے کہ وہ دورانِ کار غیر جانبداری سے اپنے فرائض انجام دیں۔

( اس خبر میں کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا)