"ابھی تین لیٹر پیٹرول ڈلواؤں گا اپنے موٹر سائیکل میں اور اگر قیمتوں میں 30 روپے لیٹر اضافہ ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب ہے مجھے 90 روپے اضافی دینا ہوں گے اس سے میرے اخراجات میں خاصا اضافہ ہوگا جب کہ میری تنخوا وہی ہے۔'
یہ کہنا ہے پیٹرول اسٹیشن کی لائن میں کھڑے راولپنڈی کے ایک موٹر سائیکل سوار کاشان اختر کا جو ایک کال سینٹر میں کام کرتے ہیں۔
اُن کے بقول پیٹرول کی قیمت میں اضافہ تو ہونا ہی ہونا ہے جیسا کہ ہمارے وزیر خزانہ کہہ رہے ہیں کہ کم از کم 30 روپے اضافہ کیا جائے گا لیکن اس سے صرف پیٹرول کی قیمت ہی نہیں بڑھے گی بلکہ روزمرہ ضرورت کی ہر چیز مہنگی ہوجائے گی۔
حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت پیٹرول کی قیمت کم رکھنے کے لیے ہر ماہ سو ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے تاہم عالمی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب اسے برقرار رکھنا حکومت کی معاشی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
عالمی مالیاتی اداروں کا بھی دباؤ ہے کہ سبسڈی ختم کی جائے لیکن حکومت سیاسی دباؤ کے پیشِ نظر کوئی بھی مشکل فیصلہ کرنے سے گریزاں ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پیٹرول پر سبسڈی دینے سے معیشت کو ہونے والے نقصانات کا براہ راست اثر بھی عام آدمی پر پڑرہا ہے، کیونکہ روپے کی قدر مسلسل گھٹ رہی ہے۔ خسارہ بڑھ رہا ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہر معیشت اور سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ حکومت کو معاشی اعتبار سے سخت فیصلے لینے میں حساسیت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور پیٹرول کی قیمتوں کے حوالے سے فیصلہ جلد کرلینا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو لگتا ہے کہ اس فیصلے سے انہیں سیاسی طور پر نقصان ہوگا تاہم جلد یا بدیر یہ فیصلے بہر صورت انہیں لینا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہے کہ پیٹرول پر سبسڈی ختم کی جائے۔
سلمان شاہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو قرضوں کی واپسی کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے جس کے آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ضروری ہو گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا نے رواں ہفتے توانائی کے نرخوں کو عالمی سطح پر اضافے سے ہم آہنگ کرنے کی تجویز دی تھی جس پر وزیر ِاعظم شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں پر سبسڈی ختم کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ پاکستانی معیشت کو سہارا دیا جاسکے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد رزاق کہتے ہیں کہ یوکرین جنگ کے باعث عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھی ہوئی ہیں اور مشکل معاشی صورت ِحال میں حکومت کے لیے اس اضافے کو زیادہ عرصہ روکے رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو بتدریج یہ اضافہ عوام کو منتقل کر دینا چاہیے کیونکہ تاخیر سے کیے گئے فیصلوں کا بھی براہ راست اثر عوام پر ہی پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں عمران خان کی حکومت آئی تھی تو اس وقت بھی انہوں نے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کا فیصلہ تاخیر سے کیا جس کا معاشی طور پر نقصان ہوا۔
انہوں نے کہا کہ یہی حال اب بھی ہے کہ اگر یہ فیصلے تاخیر سے لیے گئے تو ان کا شدید دباؤ آئندہ چھ سے 8 ماہ میں آئے گا۔
معاشی حکام بھی حکومت کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں کو کم رکھنے کے سلسلے میں صارفین کو دی جانے والی سبسڈی کو دو سے تین ماہ کے عرصے میں بتدریج ختم کرے تاکہ عام شہریوں پر اس فیصلے کے مالیاتی اثرات کی اچانک شدت کم سے کم رہے۔
ڈاکٹر شاہد رزاق کے بقول نئی حکومت اس وقت سیاسی دباؤ کے تحت پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے گریزاں ہے کیونکہ اگر قیمتیں بڑھائیں گئیں تو سیاسی طور پر نقصان ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ سیاسی قائدین سوچ رہے ہیں کہ اگر قیمتیں بڑھائیں گے تو عمران خان کی گزشتہ حکومت کے خلاف ان کا مہنگائی کا بیانیہ ختم ہوجائے گا۔
ان کے بقول اس عمل سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور عمران خان کی حکومت مخالف تحریک کے لیے عوامی حمایت بڑھ سکتی ہے۔
حکومت فی لیٹر پیٹرول پر 29 روپے60 پیسے سبسڈی دے رہی ہے جب کہ رواں ہفتے سے فی لیٹر پیٹرول پرسبسڈی کی یہ رقم بڑھ کر 45 روپے14پیسے تک پہنچ گی ہے۔
سبسڈی ختم کرنے کے نتیجے میں فی لیٹر پیٹرول 195روپے کا ہوجائے گا۔
اسی طرح ڈیزل پر فی لیٹر سبسڈی 85 روپے 85 پیسے ہے جسے ختم کرنے سے ڈیزل کی قیمت 230روپے فی لیٹر تک پہنچ سکتی ہے۔