چین کے صدر شی جن پنگ نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا ہے کہ چین اب دنیا کے مختلف ممالک میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کے بجائے توانائی کے متبادل ذرائع میں مدد فراہم کرے گا۔ اس اقدام کا مقصد دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی روک تھام کے لیے کاربن کے اخراج کو کم کرنا ہے۔
چین دنیا بھر میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس سب سے زیادہ سرمایہ فراہم کرنے والا ملک ہے جس کی مدد سے بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ویتنام اور جنوبی افریقہ کے علاوہ پاکستان میں بھی کوئلے سے بجلی حاصل کرنے والے متعدد پلانٹس فعال ہیں۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کے تحت چند برس میں کئی ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری سے پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبے لگائے گئے ہیں۔
ان منصوبوں میں 1320 میگاواٹ کے پلانٹس ساہیوال، 1320 میگاواٹ کے پلانٹس کراچی کے پورٹ قاسم میں اور 1320 میگاواٹ کے پاور پلانٹس بلوچستان میں حب میں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ تھر میں بھی کوئلے سے 660 میگاواٹ بجلی کے منصوبے چینی کمپنیوں اور سرمایہ کاری سے چلائے جا رہے ہیں۔
گیس اور ایندھن کی دیگر اقسام سے پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں چینی سرمایہ کاری اس کے علاوہ ہے۔
دوسری جانب کوئلے سے چلنے والے ایک ارب ڈالر سے زائد کے منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں بھی ہیں۔ ان میں حبکو تھر کول پاور پلانٹ بھی شامل ہے جس سے مستقبل میں 330 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ اور یہ منصوبہ دسمبر 2021 تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔
اس کے علاوہ تھر ہی میں تھل نوا پاور پروجیکٹ بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جہاں سے 330 میگاواٹ بجلی کا حصول ہوگا اور یہ پلانٹ امید کی جا رہی ہے کہ جون 2022 تک فعال ہو جائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ سی پیک منصوبے کے مرکز سمجھے جانے والے شہر گوادر میں مستقبل میں بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 300 میگاواٹ کا کوئلے سے چلنے والا پاور پلانٹ لگایا جا رہا ہے۔ 54 کروڑ ڈالر سے زائد کے اس منصوبے کے لیے زمین حاصل کر لی گئی ہے جب کہ معاہدے کو حتمی شکل بھی دی جا چکی ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ یہ منصوبہ آئندہ چند برس میں مکمل ہو جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
توانائی سے جڑے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے صدر کے اعلان سے لگتا ہے کہ ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد کوئلے سے چلنے والے مزید نئے منصوبے نہیں لگائے جائیں گے البتہ وہ منصوبے جو بجلی کی پیداوار شروع کرنے والے ہیں یا تکمیل کے آخری مراحل میں وہ اپنے مقرر۔ کردہ شیڈول کے تحت ہی مکمل ہوں گے۔ کیوں کہ منصوبے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں فریقین عالمی عدالتوں کا رخ کر سکتے ہیں جہاں بھاری جرمانہ بھی عائد ہو سکتا ہے۔
پاکستان کویت انوسٹمنٹ کمپنی میں ہیڈ آف ریسرچ اور توانائی کے شعبے کے ماہر سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ اس اعلان کے تحت لگتا ہے کہ چین کی حکومت پاکستان میں تھر بلاک چھ میں مزید 4000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں سے دستبردار ہو جائے گی جو ابھی تک شروع نہیں ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ بھی اس سے قبل سی پیک میں شامل تھا البتہ ابھی اس پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ نہیں لگایا گیا اور یہ منصوبہ انتہائی ابتدائی مراحل میں ہے۔
اس کے علاوہ کوئلے سے بجلی کا ایک اور بڑا منصوبہ گڈانی پاور پروجیکٹ ہے جس سے 6600 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ تھا۔ اس میں بھی چین نے 1200 ملین ڈالرز یعنی 85 فی صد فنڈز فراہم کرنے کی حامی بھری تھی۔ البتہ یہ منصوبہ چند برس پہلے ہی تکنیکی اور اقتصادی وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا تھا۔
پاکستان پن بجلی اور آر ایل این جی کے بعد سب سے زیادہ بجلی کوئلے ہی سے پیدا کرتا ہے۔
اگست کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 34 فی صد بجلی پانی سے، آر ایل این جی سے 18 فی صد اور کوئلہ سے 14.3 فی صد بجلی حاصل کی گئی۔
جوہری بجلی گھروں اور فرنس آئل سے چلنے والے پارو پلانٹس سے دس دس فی صد، گیس سے 8.2 فی صد اور دیگر ذرائع سے 4.5 فی صد بجلی حاصل کی گئی۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت ملک میں لگائے گئے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت ملک میں لگائے گئے بجلی کے کارخانوں میں سے 70 فی صد کوئلے سے چلائے جانے کا پروگرام ہے جن میں سے 34.04 فی صد تھر کے کوئلے سے اور باقی 36.62 فی صد درآمدی کوئلے سے بجلی پیدا کریں گے۔ جب کہ اس منصوبے کے تحت پانی سے توانائی کے حصول کے 29 فی صد پروجیکٹس شامل ہیں۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ برس 12 دسمبر کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے توانائی کے قدرتی ذرائع پر انحصار بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مزید کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس نہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دو کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کے منصوبے ختم کر دیے گئے ہیں جس سے 2600 میگاواٹ توانائی پیدا کی جانی تھی۔ اور اُن کی جگہ پانی سے توانائی پیدا کی جائے گی۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ 2030 تک پاکستان میں پیدا ہونے والی کل توانائی کا 60 فی صد متبادل صاف ذرائع سے حاصل کی جائے گی۔