پاکستان کے تین بڑے صوبوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ گزشتہ چند روز میں ایک بار پھر بڑھ کر 6 سے 10 گھنٹے تک جا پہنچا ہے جس سے پنجاب اور خیبرپختونخوا سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
شہری علاقوں میں صورتِ حال بہتر ہے تاہم دیہی علاقوں میں صورتِ حال زیادہ خراب ہے اور وہاں کئی علاقوں میں 12، 12 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی اطلاعات ہیں۔ جب کہ ایسے علاقے جہاں بجلی کے بلوں کی ریکوری کم ہے وہاں بھی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ مزید بڑھا دیا گیا ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کے علاقے حب میں واقع چائنہ پاور حب جنریشن کمپنی کے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر پر آسمانی بجلی گرنے کی وجہ سے سپلائی میں تعطل آیا ہے اور یوں سسٹم میں 1320 میگاواٹ کی بجلی کم ہو گئی ہے۔
دوسری جانب منگلا ڈیم سے پانی کے اخراج میں کمی کو بجلی کی پیداوار کم ہونے کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ پن بجلی سے پیداوار میں کمی اور کوئلے سے چلنے والے پلانٹس کے تعطل سے پیدا ہونے والی بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مقامی گیس کا مزید 3.75 فی صد پاور سیکٹر کی طلب کو پورا کرنے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
وزارتِ پانی و بجلی کے حکام کے مطابق شدید گرمی کی اس لہر میں گیس کا شارٹ فال 150 ملین کیوبک فٹ (ایم ایم سی ایف ڈی) تک ہے۔ اس وقت مختلف پاور پلانٹس چلانے کے لیے مجموعی طورپر 950 ملین کیوبک فٹ گیس درکار ہوتی ہے۔ تاہم پاور کمپنیوں کو 800 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جا رہی ہے۔
حکام کے بقول اس کے نتیجے میں بجلی کی پیداوار میں تقریباً 750 میگاواٹ کمی کا سامنا ہے۔ اس طرح ملک میں پن بجلی کی کم پیداوار، گیس کی کمی اور ایک اہم بجلی گھر بند ہونے کی وجہ سے مجموعی طور پراس وقت ملک میں بجلی کا شارٹ فال پانچ ہزار میگاواٹ تک جا پہنچا ہے۔ جس کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
توانائی امور کے ماہر اور تجزیہ کار سمیع اللہ طارق کے مطابق بجلی کا موجودہ بحران فی الحال عارضی نوعیت کا ہے جو پیداوار بہتر ہونے کی صورت میں آئندہ چند دنوں میں ختم ہوجائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بحران کی اہم وجوہ میں پن بجلی کی پیداوار میں کمی ہونا ہے کیوں کہ برف دیر سے پگھلنے کی وجہ سے اب تک دریاؤں میں پانی کا بہاؤ اس موسم میں معمول سے کم ہے۔
اُن کے بقول بارش کے بعد بجلی کی طلب میں اضافہ بھی رک جائے گا۔ تیسرا یہ کہ امید کی جا رہی ہے کہ چین کا حب پاور پلانٹ بھی جلد آن لائن آ جائے گا جس سے کسی حد تک صورتِ حال میں بہتری واقع ہو گی۔
سمیع اللہ طارق کہتے ہیں کہ طویل المدت میں مسئلے کے حل کے لیے متعدد اقدامات کی ضرورت ہے جن میں سے ایک موجودہ ایل این جی ٹرمینلز پر تین سو ایم ایم سی ایف ڈی گیس لانے کی اضافی استعداد موجود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ماہانہ مزید تین ایل این جی کارگوز درآمد کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں قانونی اور دستاویزی پیچیدگیوں کو دور کرنے سے یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔
ادھر وزیرِ اعظم کے مشیر برائے توانائی اور پیٹرولیم تابش گوہر نے نجی ٹی وی 'جیو نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ سردیوں سے قبل ایل این جی ٹرمینلز کی تین سو ایم ایم سی ایف ڈی کی اضافی صلاحیت کو بروئے کار لائے تاکہ گیس کی لوڈ شیڈنگ کم سے کم ہو جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایل این جی کی اسٹوریج بڑھانی چاہیے تھی لیکن یہ کام اب تک نہیں ہو سکا جس پر اب کام ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈرائی ڈاکنگ پر جانے والے جہاز کی جگہ نئے کارگو میں مزید 150 ایم ایم سی ایف ڈی گیس اسٹور کرنے کی صلاحیت موجود ہے جسے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب تابش گوہر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں بجلی ضرورت سے زیادہ ہونے کے باوجود اس کی فراہمی میں اصل رکاوٹ کیپیسٹی چارجز کی مد میں بڑھنے والے گردشی قرضے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سال کے اکثر اوقات ملک کے پاس ضرورت سے زائد بجلی موجود ہے۔ گرمیوں میں یہ طلب 28 ہزار میگاواٹ تک جا پہنچتی ہے جب کہ سردی کے مہینوں میں بجلی کی طلب محض 12 ہزار میگاواٹ تک ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان مجموعی طور پر 35 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن تابش گوہر کے مطابق اصل مسئلہ کیپیسٹی پیمنٹ کا ہے جس کی مد میں اس مالی سال میں بھی حکومت نے بجلی بنانے والی کمپنیوں کو 900 ارب روپے لازمی ادا کرنا ہیں اور یہ رقم سال 2023 میں بڑھ کر 1455 ارب روپے تک جا پہنچے گی۔
توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کے بحران کے حل کے لیے حکومت کو پاور سیکٹر میں انتظامی امور کو بہتر بنانے کے ساتھ، ایندھن کی وقت پر سپلائی کو یقنی بنانا ہو گا۔