وزیرِ اعظم پاکستان کے مشیر برائے تجارت اور سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ملک کی برآمدات میں مسلسل چوتھے ماہ اضافے کا رجحان ریکارڈ کیا گیا ہے اور ایسا آٹھ سال میں پہلی بار ہوا ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان کی برآمدات مسلسل چوتھے ماہ دو ارب امریکی ڈالر سے زیادہ رہی ہیں۔
وزارتِ تجارت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2021 میں برآمدات جنوری 2020 کے مقابلے میں آٹھ فی صد زیادہ ریکارڈ کی گئیں جو 2.14 ارب ڈالرز رہیں۔
عبوری اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ کے دوران پاکستان کی برآمدات میں 5.5 فی صد اضافہ دیکھا گیا اور اب تک پاکستان 14.25 ارب ڈالرز کی مختلف مصنوعات مختلف ممالک کو برآمد کر چکا ہے۔ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران یہ رقم 13.507 ارب امریکی ڈالرز تھی۔
عبدالرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ کرونا وبا میں بڑی مارکیٹس سکڑنے کے باوجود برآمدکنندگان نے یہ کامیابی حاصل کی۔
اُنہوں نے برآمد کنندگان سے اپیل کی کہ وہ پوری رفتار سے اپنی مصنوعات برآمد کریں اور اگر اس بارے میں کوئی رکاوٹ آئے تو وزارتِ تجارت کو مطلع کیا جائے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی تجارت کا بڑا حصہ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس، فوڈ آئٹمز، چمڑے سے بنی مصنوعات اور پھر دیگر اشیا ہیں۔
ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کا شیئر اس میں 60 فی صد سے زائد ہے۔ اس میں تیار لباس، کپڑا، بیڈ ویئر، کاٹن سے تیار شدہ کپڑے، دھاگہ، تولیے اور ہوزری آئٹمز شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کیا پاکستان برآمدات کی موجودہ رفتار کو برقرار رکھ پائے گا؟
اس وقت سب سے اہم سوال یہی ہے کہ پاکستان برآمدات میں مسلسل اضافے کے رجحان کو کس حد تک برقرار رکھ پائے گا۔ اس بارے میں پائے جانے والے خدشات میں سب سے اہم تو یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بڑا انحصار جس خام مال پر ہے یعنی کپاس، اس بار اس کی فصل 30 فی صد کے لگ بھگ کم ہوئی ہے۔
دوسری جانب حکومت نے یکم فروری سے نان ایکسپورٹ سیکٹر اور پھر یکم مارچ سے ایکسپورٹ سیکٹر کی صنعتوں کو بھی بجلی پیدا کرنے کے لیے گیس پر چلنے والے کیپٹو پاور اسٹیشن بھی بند کرنے کو کہا ہے۔ یعنی ایسے پلانٹ جو صنعت کاروں نے خود لگا رکھے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ گیس کے کم ہوتے ذخائر اور نتیجتاً اس کی درآمد پر آنے والے اخراجات کے باعث اب تاجر حضرات توانائی نیشنل گرڈ سے حاصل کریں۔
وزیرِ اعظم کے مشیر برائے پیٹرولیم اور توانائی کا کہنا ہے کہ ان صنعتی یونٹس کو جو پاور گرڈ سے منسلک نہیں، انہیں فوری طور پر گیس کی فراہمی معطل نہیں کی جا رہی۔ تاہم انہیں کہا گیا ہے کہ وہ دسمبر 2021 تک مکمل طور پر کیپٹو پاور پلانٹس کو نیشنل پاور گرڈ سے منسلک کر لیں۔
اس مقصد کے لیے پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیز کو کہا گیا ہے کہ نئے کنکشن اور صنعتوں کے لیے لوڈ بڑھانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں اور صنعتوں کو سپلائی یقینی بنائی جائے۔
گیس کے بجائے قومی گرڈ سے بجلی کے حصول پر صنعت کار ناخوش
لیکن تاجر تنظیمیں اور صنعتیں حکومت کے اس فیصلے سے ناخوش دکھائی دیتی ہیں، اور حکومت پر اپنا فیصلہ واپس لینے پر زور دے رہی ہیں۔
صنعت کاروں اور حکومت کے ساتھ 29 جنوری کو ہونے والی ملاقات میں بھی حکومت اس فیصلے کو بدلنے پر تیار نہیں ہوئی۔ معروف ایکسپورٹر اور صنعت کار زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ اس عمل سے ٹیکسٹائل سیکٹر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں زبیر موتی والا کا کہنا تھا "حکومت نے ہمارے ساتھ گیس کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا جس کی بنیاد پر ہی ٹیکسٹائل ملز مالکان نے گیس پر چلنے والے کیپٹو پاور پلانٹس اپنی صنعتوں کے لیے نصب کیے تھے۔"
انہوں نے سوال کیا کہ ہم نے حکومت کے کہنے پر کیپٹو پاور پلانٹس لگائے، اب اس کا ہم کیا کریں؟ ایک جانب حکومت آئی پی پی پیز کو گیس کی فراہمی کے وعدے سے منہ نہیں موڑ رہی تو دوسری جانب صنعتوں کو وعدے کے مطابق گیس فراہم نہ کر کے لاکھوں برسرِ روزگار لوگوں کو روزگار سے محروم کیا جا رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ واپڈا ہو یا کراچی الیکٹرک، وہ موجودہ ٹرانسمیشن سسٹم کے ذریعے یہ گارنٹی دے ہی نہیں سکتے کہ وہ صنعتوں کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی ممکن بناسکیں گے۔ اور ظاہر ہے کہ اس کی قیمت بھی گیس سے بجلی بنانے کے مقابلے میں مہنگی پڑے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر صنعتوں کو بلا تعطل اور مکمل لوڈ کے ساتھ بجلی نہیں مل پائے گی تو مشینری کیسے چلے گی بلکہ وہ کم لوڈ پر خراب ہو جائیں گی۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہو گا کہ ہم برآمدات کے لیے حاصل کیے گئے آرڈرز کو پورا نہیں کر پائیں گے اور نتیجتاً ہمارے مستقبل کے سودے بھی اس بنیاد پر نہیں بن پائیں گے۔
SEE ALSO: کارخانوں کے لیے سستی بجلی فراہم کرنے کا اعلان، صنعت کاروں کا ملا جلا ردِ عملصنعت کاروں کا کہنا ہے کہ قومی گرڈ سے مہنگی بجلی حاصل کر کے عالمی مارکیٹ میں ان کی مصنوعات کی مسابقت دیگر مصنوعات سے کم ہوجائیں گی۔ اس لیے ان کے خیال میں کاروباری لحاظ سے اس فیصلے کے انتہائی مضر اثرات پڑیں گے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق کیپٹو پاور پلانٹس کی تنصیب میں صنعت کاروں نے ڈیڑھ سو سے 200 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے الیکٹرک گزشتہ گرمیوں کے دوران شہر کو 3200 میگاواٹ بجلی فراہم کر رہی تھی جب کہ اس کی ضرورت 3600 میگاواٹ یومیہ تھی۔
اس طرح کے الیکٹرک 400 میگاواٹ کے شارٹ فال کو پورا نہیں کر پائی تو کراچی میں ایک ماہ یا چند ماہ میں بھی مزید ایک ہزار میگاواٹ بجلی لانے کے لیے ٹرانسمیشن لائن کیسے آئے گی؟
دوسری جانب توانائی پر نظر رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کار حکومت کی جانب سے اس فیصلے کو معیشت پر بوجھ سمجھے جانے والے گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے مثبت قدم قرار دیتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ٹاپ لائن سیکیورٹیز میں ہیڈ آف ریسرچ اور توانائی کے شعبے کے ماہر شنکر تلریجس کے بقول حکومت کے اس اقدام کا مقصد سرپلس بجلی کی کھپت کو پورا کرنا ہے۔
اُن کے بقول ملک میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران آٹھ سے 10 ہزار میگاواٹ کے پلانٹ آن لائن ہوئے ہیں اور ظاہر ہے کہ حکومت کو اس استعداد کو استعمال تو کرنا ہے۔ کیوں کہ ان کے استعمال نہ کرنے سے بھی کیپیسٹی چارجز کی مد میں حکومت کو بڑی رقم ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صنعت کاروں کے تحفظات کسی حد تک جائز بھی ہیں۔ اگر بجلی موجود ہے تو ٹرانسمیشن لائنز کو بھی بہتر بنانا ضروری ہے کیوں کہ اس وقت وہ بہت محدود ہے۔
شنکر تلریجس اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ صنعت کار قومی گرڈ سے بجلی حاصل کرنے سے اس لیے کترا رہے ہیں کہ گرڈ سے بجلی کا ایک یونٹ انہیں 18 سے 19 روپے کا پڑتا ہے۔
اُن کے بقول کیپٹو پاور پلانٹ کے ذریعے بجلی پیدا کرنے سے لاگت کم آتی ہے۔ کیپٹو پلانٹ اگر کوئلہ پر چل رہا ہو تو نو روپے فی یونٹ، آر ایل این جی پر 15 روپے، فرنس آئل پر 13 سے 14 روپے کا پڑتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ حکومت نے قومی گرڈ سے بجلی لینے والی صنعتوں کو اس مد میں ایک سال میں اضافی یونٹس استعمال کرنے پر 25 فی صد رعایت دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔
شنکر تلریجس کہتے ہیں کہ توانائی پالیسی میں حکومت کو نجی شعبے کو بھی شامل کرنا ہو گا تاکہ صرف حکومت ہی بجلی یا آر ایل این جی نہ خریدے بلکہ نجی شعبہ بھی اپنے گاہک ڈھونڈے اور یہ کاروبار کرے۔
ادھر زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا حل مستقل ٹرانسمیشن لائنز کی بہتری کے لیے سرمایہ کاری میں ہے۔ کیوں کہ صنعت کاروں کے لیے موجودہ ٹرانسمیشن سسٹم قابلِ بھروسہ ہے ہی نہیں۔
دوسری جانب وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ آر ایل این جی حکومت کے ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کو بھی درآمد کرنے دی جائے۔ اس سے مسابقت کی فضا پیدا ہوگی اور پھر صنعت کاروں کے پاس بھی آپشنز ہوں گے۔
حکومت کی جانب سے کیپٹو پاورپلانٹس کو گیس سے بجلی پر منتقل کرنے کی ڈیڈ لائن یکم مارچ مقرر کی گئی تھی لیکن ایکسپورٹ سیکٹرز سے وابستہ صنعت کاروں کے مطابق اس قدر کم وقت میں یہ ممکن ہی نہیں۔ تاہم حکومت سے مذاکرات کے بعد فی الحال 118 یونٹس کو گیس کی فراہمی بحال کردی گئی ہے۔