پی ٹی آئی، پی ڈی ایم مذاکرات؛ 'کچھ دو اور کچھ لو ہی مسئلے کا حل ہے'

پاکستان میں حکمراں اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں ایک ہی روز الیکشن کرانے پر اتفاق کے دعوے سامنے آ رہے ہیں تو وہیں پی ٹی آئی مذاکراتی عمل کے حوالے سے شش و پنج کا شکار دکھائی دیتی ہے۔

جمعے کو سپریم کورٹ میں ایک ہی روز الیکشن کرانے کے کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے مذاکرات کو وقت کا ضیاع قرار دیتے ہوئے مزید مذاکرات سے انکار کر دیا۔

کیا پاکستان تحریکِ انصاف اور حکومت الیکشن کی کسی تاریخ پر جلد متفق ہو جائیں گے؟ 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا کیا ہو گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں موضوعِ بحث ہیں۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ اگر رواں برس ستمبر میں بھی انتخابات پر اتفاق ہوتا ہے تو اس سے پہلے حکومت کو اسمبلیاں تحلیل کرنا ہوں گی جو بجٹ سے پہلے مشکل نظر آتا ہے۔ اِسی طرح بجٹ سے قبل عوام کو ریلیف دینا بھی حکومت کے لیے ممکن نظر نہیں آ رہا۔

مبصرین کے مطابق اگر اب دونوں جماعتیں اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹیں تو نقصان ہو گا۔

'پنجاب میں 14 مئی کو تو اب الیکشن ہوتے نظر نہیں آتے'

پاکستان میں جاری سیاسی بحران ختم کرنے کے لیے صحافیوں کی جانب سے بنائے گئے ایک فورم کے رُکن سینئر صحافی امتیاز عالم کہتے ہیں کہ ایک بات تو طے ہے کہ اب 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن نہیں ہو رہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت جولائی میں قومی اسمبلی تحلیل کرنا چاہتی ہے اور اکتوبر میں انتخابات کرانا چاہتی ہے۔ جب کہ عمران خان جولائی میں انتخابات چاہتے ہیں۔

اُن کے بقول یہ فرق 67 یا 68 روز کا ہے جو اتنا بڑا فرق نہیں ہے۔ اتنے کم عرصے میں کسی جماعت کا بھی ووٹ بینک متاثر نہیں ہو گا۔

امتیاز عالم کے بقول مذاکرات کے باوجود پی ٹی آئی نے عدالتِ عظمیٰ سے رُجوع کیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرائے۔

اُن کے بقول مذاکرات کے علاوہ ملک میں جو نیا بحران سپریم کورٹ اور پارلیمان کی محاذ آرائی کی صورت میں شروع ہو گیا ہے وہ خطرناک ہے۔

پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ کم از کم مذاکرات کی صورت میں سیاسی جماعتیں ایک ہی میز پر بیٹھی ہیں جو کچھ عرصہ قبل ناممکن نظر آتا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ فریقین کے درمیان گفتگو ختم بھی ہو گئی ہے, لیکن زیادہ تلخی نہیں ہوئی۔ یہ فریقین کی کامیابی اور سمجھ داری ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ابھی بھی یہ واضح نہیں ہے کہ فریقین کے درمیان دوبارہ بات چیت ہو گی یا نہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان برف تھوڑی پگھلی ہے اور بات چیت شروع ہوئی ہے تو یہ کسی اور موضوع پر دوبارہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک اچھا تجربہ رہا جس میں دونوں اطراف نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے حکومت سے نکلنے کے بعد گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے میں حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ جلسے جلوس، ریلیاں، لانگ مارچ، جیل بھرو تحریک اور دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیں لیکن اُنہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی جس کی وجہ شاید مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل نہ ہونا ہے۔

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کے تین دور ہونے کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ مذاکرات مثبت ماحول میں ہوئے ہیں جس میں حکومت اور پی ٹی آئی نے پورے ملک میں ایک ہی دن انتخاب کے لیے اتفاق کیا ہے البتہ ابھی تاریخ طے نہیں کی گئی۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ پورے ملک میں نگراں حکومتوں کی موجودگی میں عام انتخابات ہوں گے۔ دونوں اطراف سے لچک دکھائی گئی ہے البتہ تارٰیخ کے حوالے سے تحفظات ہیں۔

ملکی سیاست پر اثر

امتیاز عالم کے بقول اگر بات چیت کے نتیجے میں ملک میں انتخابات ہو جاتے ہیں تو لوگوں کو بھی یقین ہو جائے گا کہ مذاکرات تمام مسائل کا حل ہے، لوگ انتخابات کی تیاری کریں گے۔

اُن کے بقول بہرحال پی ٹی آئی کو کچھ دو اور کچھ لو کے تحت آگے بڑھنا ہو گا۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ انتخابات کے لیے ایک اچھا ماحول ہونا چاہیے۔ اگر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے ناراض ہو کر بیٹھ جائیں گی تو اس سے انتخابات کے لیے بھی اچھا ماحول نہیں بنے گا۔

کس کی جیت کس کی ہار

احمد بلال محبوب کا خیال ہے کہ دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا عمران خان کا درست فیصلہ نہیں تھا۔ کیوں کہ سیاسی لحاظ سے اُنہیں فائدے کے بجائے نقصان ہوا۔

اُن کے بقول اگر پنجاب اور خٰیبرپختونخوا کی اسمبلیاں برقرار ہوتیں تو عمران خان مذاکرات کے لیے زیادہ بہتر پوزیشن پر ہوتے۔

امتیاز عالم سمجھتے ہیں کہ مذاکرت میں کسی کی ہار یا جیت والی بات نہیں ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی کی قیادت مذاکرات کے حق میں نہیں تھی تو دوسری جانب حکومتی اتحاد میں شامل مولانا فضل الرحمٰن بھی پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حامی نہیں تھے۔ اب چوں کہ دونوں اکٹھے بیٹھے ہیں اور ایک وقت میں انتخابات کرانے پر رضا مند ہیں تو یہ ایک کامیابی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اَب اگر دونوں فریق اپنی بات سے پیچھے ہٹیں گے تو سیاسی جماعتوں کا نقصان ہو گا جس میں زیادہ نقصان پی ٹی آئی کا ہو گا۔