پاکستان نے کہا ہے کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں جس بھی امیدوار کی جیت ہو گی اسلام آباد اس کے ساتھ کام کرنے کا منتطر ہے۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ کا یہ بیان امریکہ میں تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب کے موقع پر سامنے آیا ہے جب پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے 'عرب نیوز' کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ صدارتی انتخاب امریکہ کا اندرونی معاملہ ہے۔ لیکن اس موقع پر پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے امریکی عوام کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔
ادھر پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر اور امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر شیری رحمن کا کہنا ہے کہ روایتی طور پر پاکستان نے کبھی امریکہ کے صدارتی انتخابات میں کسی ایک فریق کی حمایت نہیں کی۔
شیری رحمن کا کہنا ہے کہ کس کو امریکہ کا آئندہ صدر ہونا چاہیے اس بات کا فیصلہ امریکی عوام نے کرنا ہے اور ہم اس فیصلے کا احترام کریں گے۔ ان کے بقول پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات ایک ریاست کی سطح پر ہوتے ہیں۔
امریکہ کی آئندہ انتظامیہ سے پاکستان کی توقعات سے متعلق بات کرتے ہوئے شیری رحمان نے کہا کہ پاکستان آئندہ امریکی انتظامیہ سے اچھے دو طرفہ تعلقات کا خواہاں ہو گا۔
شیری رحمن کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کا تجارتی شراکت دار ہے اور پاکستان امریکہ کا غیر نیٹو اتحادی بھی رہا ہے اس لیے وہ یہ توقع کرتی ہیں کہ امریکہ پاکستان کو صرف افغانستان کے تناظر میں نہ دیکھے۔
شیری رحمان نے کہا کہ پاکستان، آئندہ امریکی انتظامیہ سے یہ توقع رکھے گا کہ وہ اقتصادی اور تجارتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلقات کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرے۔
ان کے بقول پاکستان کو امریکہ سے یہ توقع ہے کہ وہ تنازع کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالے گا، جب کہ وہاں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا بھی نوٹس لیا جائے گا۔ خیال رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کر چکے ہیں۔ تاہم بھارت اسے دو طرفہ معاملہ قرار دیتے ہوئے اس پیش کش کو مسترد کرتا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
شیری رحمن کا کہنا تھا کہ پاکستان سے بار بار یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس نے افغانستان میں امن کے لیے کیا اقدامات کیے، لیکن اب پاکستان بھی یہ توقع کرتا ہے کہ خطے میں امن و استحکام اور انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ بھی اپنا کردار ادا کرے۔
دوسری طرف امریکہ کے چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر تحفظات کے باوجود شیری رحمن کا کہنا ہے کہ پاکستان چین اور سی پیک سے متعلق اپنی پالیسی کو تبدیل نہیں کرے گا اور نہ ہی سی پیک منصوبوں کو محدود کرنے پر تیار ہو گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود پاکستان، امریکہ کے ساتھ تعلقات کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کا خواہش مند ہے۔
شیری رحمان کہتی ہیں کہ پاکستان سی پیک میں ایک اہم شراکت دار ہے لیکن چین نے کبھی بھی پاکستان سے یہ توقع نہیں کی کہ پاکستان کسی دوسرے ملک کے ساتھ روابط نہ بڑھائے۔
شیری رحمن کا کہنا تھا کہ ایسے وقت میں جب امریکہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے۔ ایسے میں چین اور پاکستان بھی خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مل کر کام کریں گے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ امریکہ میں چاہے کسی بھی جماعت کی حکومت ہو۔ پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت مفادات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
ان کے بقول اگر امریکہ کا مفاد ہو گا تو وہ پاکستان سے تعلقات کو استوار رکھے گا۔ بصورتِ دیگر تعلقات کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔
نجم رفیق کا کہنا ہے کہ اس وقت امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ افغان امن عمل کے حوالے سے واشنگٹن کو پاکستان کی ضرورت ہے اس لیے فی الحال امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے سفارتی اور سیاسی روابط کو محدود نہیں کرے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری طرف ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ امریکہ کے صدراتی انتخابات کے نتائج تہران کی واشنگٹن پالیسی پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران کی پالیسی واضح ہے اور اس پر کسی فرد کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
یاد رہے کہ اامریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2018 میں ایران جوہری معاہدے سے الگ ہونے کے بعد ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو ایران سے متعلق ان کی موجودہ پالیسی برقرار رہے گی۔ لیکن اگر جو بائیڈن صدر بنتے ہیں تو وہ ایران کو جوہری پروگرام سے دُور رکھنے کے لیے جوہری معاہدے کو بحال کر سکتے ہیں۔