پانچ کروڑ بیرل امریکی آئل مارکیٹ میں لانے سے قیمتوں پر کیا اثر پڑے گا؟

  • قمر عباس جعفری

کیلی فورینا کی ایک آئل فیلڈ، فائل فوٹو

عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں ہی کے لئے ہی نہیں، بلکہ امریکہ جیسے انتہائی ترقی یافتہ ملک کا بھی مسئلہ ہے۔ اور اس مسئلے سے نمبٹنے کے لئے امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے امریکہ کے تیل کے محفوظ ذخائر میں سے پانچ کروڑ بیرل تیل مارکیٹ میں لانے کا حکم دیا ہے۔ تاکہ تیل کی قیمتوں کو مستحکم کیا جا سکے۔

یہ ریزرو کیا ہیں؟ ان کی تاریخ کیا ہے؟ اور کن ملکوں کے پاس یہ ذخائر بڑی مقدار میں موجود ہیں؟ یہ تفصیلات تو آگے چل کر بتائی جائیں گی۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس اضافی تیل کے مارکیٹ میں لانے سے واقعی تیل کی قیمتیں کم ہوں گی۔ تیل کی صنعت کے بیشتر ماہرین کا خیال ہے کہ بظاہر ایسا نظر نہیں آتا۔

مسعود ابدالی عرصے تک تیل کی صنعت سے وابستہ رہے ہیں اور تیل سے متعلق امور اور مارکیٹ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ میں کرونا کی وبا سے پہلے کوئی دو کروڑ بیرل تیل روزانہ استعمال ہوتا تھا۔ اور اب لگ بھگ ایک کروڑ 80 لاکھ بیرل یا اس سے کچھ زیادہ تیل استعمال ہوتا ہے۔ تو جہاں اتنا تیل روزانہ صرف ہوتا ہو، وہاں پانچ کروڑ بیرل اضافی تیل کتنے دن کی ضروریات پوری کرے گا اور کتنا فرق ڈالے گا۔ ہر چند کہ تیل کا ذخیرہ کرنے کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ اگر تیل کا بحران پیدا ہو یا قیمتیں بہت بڑھ جائیں تو اس ذخیرے سے تیل نکال کر مارکیٹ میں ڈال دیا جائے۔ اور قیمتوں کو مستحکم کیا جائے اور اس وقت صدر بائیڈن کی حکومت یہی کر رہی ہے، اور ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر قیمتوں میں معمولی سی کمی بھی نظر آئے۔ لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ برطانیہ نے اپنے محفوظ ذخائر میں سے ڈیڑھ کروڑ بیرل اور بھارت نے پچاس لاکھ بیرل تیل مارکیٹ میں لانے کے لئے کہا ہے۔ گویا مجموعی طور پر تقریباً سات کروڑ بیرل اضافی تیل آئندہ مارکیٹ میں آئے گا۔ جب کہ دنیا میں روزانہ ساڑھے آٹھ کروڑ بیرل تیل خرچ ہوتا ہے۔ اور ان اعلانات کے بعد تیل کی عالمی منڈی میں بدھ کے روز امریکی برانڈ اور برطانوی برانڈ تیل کی قیمتوں میں صرف 37 سینٹ فی بیرل کی مجموعی کمی ہوئی ہے۔ جب کہ سعودی عرب وغیرہ کے تیل کی قیمت میں اس اعلان کے بعد اضافہ ہوا ہے۔ اور دیکھا جائے تو تیل کی مجموعی ساڑھے نو کروڑ بیرل یومیہ کی پیداوار میں یہ سات کروڑ بیرل کا ایک بار کا اضافہ قیمتوں میں کتنا فرق ڈال سکتا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے۔

مسعود ابدالی نے کہا کہ امریکہ میں ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکی تیل کمپنیوں کا بڑا کاروبار ایل این جی برآمد کرنا ہے یعنی وہ امریکہ میں نکلنے والی قدرتی گیس کو سائنسی عمل کے ذریعے مائع میں تبدیل کر کے آئل ٹینکروں کے ذریعے دوسرے ملکوں، خاص طور پر یورپ برآمد کرتے ہیں، جہاں اس مائع کو پھر سے گیس میں تبدیل کر لیا جاتا ہے، جس کے ذریعے خاص طور پر موسم سرما میں گھروں، دفتروں وغیرہ کو گرم رکھنے کا کام لیا جاتا ہے، یہ زیادہ منافع بخش کاروبار ہے اور امریکی تیل کمپنیاں تیل کی بڑھی ہوئی قیمت سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ جب کہ حکومت یہ قیمتیں کم کرنا چاہتی ہے۔ اور اس طرح امریکی حکومت اور امریکی تیل کمپنیاں بھی ایک پیج پر نہیں ہیں۔

مسعود ابدالی نے بتایا کہ دوسری جانب اوپیک ممالک اور اوپیک سے باہر کے تیل پیدا کرنے والے ممالک ایک دوسرے کے حریف تھے اور ایک دوسرے کے خلاف کام کرتے تھے لیکن اب گزشتہ چند برسوں سے ان کے درمیان خاص طور پر روس اور سعودی عرب اور اوپیک کے دوسرے ملکوں کے درمیان جنہیں اوپیک پلس کہا جاتا ہے، ہم آہنگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اور وہ مل کر کام کر رہے ہیں اس لئے اس قسم کے اقدامات سے جیسے امریکہ کر رہا ہے، تیل کی قیمتوں پر عالمی سطح پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

پروفیسر ظفر بخاری شکاگو اسٹیٹ یونیورسٹی میں مارکٹنگ اور معاشیات کے پروفیسر ہیں۔ وائس آف امریکہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ایک جانب تو امریکہ سمیت دنیا بھر میں سامان لانے لے جانے کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسرے امریکہ کے اندر کام کرنے والوں کی تعداد میں کمی پیدا ہوئی ہے یا پھر لیبر کی اجرتوں میں اضافہ ہوا ہے اور ان حالات میں تیل ہی نہیں بلکہ ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا دنیا بھر میں قیمتوں میں اضافے کے اس رجحان کو روکنا ان کے خیال میں ممکن نہیں ہے۔

پروفیسر بخاری نے کہا کہ کرونا وائرس کے بعد کے دور میں جیسے جیسے اقتصادی اور صنعتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا، تیل کی ضرورت بھی بڑھے گی اور قیمت بھی، جسے نیچے لانا ممکن نہیں ہو گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آئندہ دو سال میں پٹرول کی قیمت چار ڈالر فی گیلن پر بھی ٹھیر جائے تو غنیمت ہو گا۔

اسٹریٹیجک آئل ریزرو کیا ہیں؟

اب سے کوئی پچاس برس قبل تیل کو بطور سیاسی حربہ استعمال کرنے کا کوئی تصور نہ تھا۔ پھر1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران عربوں نے پہلی بار تیل کو بطور ایک ہتھیار استعمال کیا اور مغربی ملکوں کے لئے تیل کی برآمد پر پابندی لگا دی۔ اور مغربی ملکوں خاص طور سے امریکی معیشت کو بہت نقصان پہنچا اور اس وقت آئندہ ایسی کسی صورت حال سے بچنے کے لئے منصوبہ بندی کی گئی۔ جس کا ایک حصہ تو یہ تھا کہ اندرون ملک تیل کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ اور دوسرا حصہ یہ تھا کہ تیل کے ذخائر تعمیر کئے جائیں جنہیں اسٹریٹیجک آئل ریزرو کہا جاتا ہے۔ اور اس کے ذخیرہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جن قدرتی ذخائر سے تیل نکالا جا چکا ہے اور جو خالی ہیں، ان میں جو مسام دار دار چٹانیں ہیں، ان میں باہر سے لا کر تیل بھر دیا جاتا ہے۔ اس وقت تک امریکہ میں ایسے چار بڑے تیل کے ذخائر ہیں۔ دو ٹیکساس میں اور دو لوزیانا میں اور بتایا جاتا ہے کہ ان میں 72 کروڑ بیرل تیل محفوظ ہے۔

اسی قسم کے ذخائر برطانیہ، چین، اور دوسرے ممالک نے بھی بنائے ہیں۔ لیکن یہ زیادہ بڑے نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت میں بھی تیل کے ایسے چار محفوظ ذخائر، ایک آندھرا پردیش، دو کرناٹک اور ایک اڑیسہ میں ہے، جن کی مقدار چھ یا سات کروڑ بیرل ہے۔