Your browser doesn’t support HTML5
غازی صلاح الدین دی نیوز کے پہلے ایڈیٹر تھے۔ وہ دانشور ہیں، صحافی ہیں، کالم نگار ہیں، سفرنامہ لکھتے ہیں۔ لیکن ان کا سب سے پہلا حوالہ کتاب ہے۔ وہ پاکستان کے ممتاز ترین کتاب خواں ہیں۔ انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور جمہوری اقدار کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔
میں نے غازی صاحب سے پوچھا کہ آپ نے ایوب خاں اور ضیا الحق کا مارشل لا دیکھا تھا۔ کیا آج جیسی صورتحال تھی؟
غازی صاحب نے کہا، نہیں۔ اس وقت جو صورتحال ہے، وہ زیادہ بری ہے۔ ضیا دور میں سنسرشپ تھی۔ پری پبلی کیشن سنسرشپ بھی تھی۔ اخبار چھاپنے سے پہلے ان کو دکھانا پڑتا تھا کہ ہم کیا چھاپ رہے ہیں۔ لیکن، کچھ قاعدے طے تھے۔ ہمیں پتا تھا کہ کیا کریں گے تو کیا سزا ملے گی۔ کیا نہیں کریں گے تو بچ جائیں گے۔ اس وقت کوئی قاعدے قوانین نہیں ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون کس بات پر آپ سے ناراض ہوجائے گا۔
غازی صاحب نے چند دن پہلے اپنے کالم میں لکھا کہ پچاس سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا جب انھوں نے صحافت شروع کی تھی۔ ایوب خاں کا دور تھا۔ ان کے ایک دوست نے کہا کہ مارشل لا کا زمانہ ہے، آزادی صحافت نہیں ہے۔ تم کیوں صحافی بن رہے ہو؟ انھوں نے کہا کہ ایسے حالات ہمیشہ تو نہیں رہیں گے۔ یہ جمہوری ملک ہے، یہاں جمہوریت آئے گی، آزادی ملے گی۔ سماجی تبدیلی آئے گی اور ترقی پسند نظام قائم ہوگا۔
غازی صاحب نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ اتنے برس میں نے اس پیشے میں گزارے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم جہاں سے چلے تھے، وہیں کھڑے ہیں بلکہ پیچھے کی طرف جاتے رہے ہیں۔
میں نے کہا کہ جب ہمیں کھیل کے تمام اصول پتا چل جاتے ہیں اور یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ کون بے ایمانی کر رہا ہے تو ہم اس کھلاڑی سے بات کرتے ہیں۔ جب صحافیوں کو علم ہے کہ کون سی قوتیں سنسرشپ لگاتی ہیں یا سیلف سنسرشپ پر مجبور کرتی ہیں تو صحافی ان سے بات کیوں نہیں کرتے؟
غازی صاحب نے کہا، ان سے بات نہیں ہوسکتی۔ وہ بات نہیں کرتے۔ وہ یہ نہیں بتاتے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ صحافت کے علاوہ میرا بعض دوسری تنظیموں سے تعلق رہا ہے، جیسے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور پلڈاٹ۔ ایچ آر سی پی نے چند ہفتے پہلے ایک رپورٹ تیار کی ہے، فیکٹ فائنڈنگ آف فریڈم آف ایکسپریشن۔ اس میں موجودہ صورتحال بیان کی گئی ہے۔ ڈان گروپ اور جیو کے ساتھ کیا ہوا ہے، یہ بتایا گیا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ایک شہر ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اس میں اخبار نہیں جانے دیں گے۔ بہت سے مقامات پر سرکولیشن رکوائی گئی ہے۔ کیبل آپریٹرز سے کہہ کر جیو نیوز کو بند کروایا گیا۔ ان سے کیا گفتگو کی جائے؟
غازی صاحب نے بتایا کہ دباؤ کے شکار میڈیا اداروں نے ان سے بات کی اور کہا کہ اچھا بھئی، ہم آپ کی بات مان لیں۔ آپ بتائیں کہ کیا کریں۔ کیونکہ دباؤ معاشی بھی ہے۔ اشتہارات بند کروائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے ادارے تین تین مہینے سے اپنے کارکنوں کو تنخواہیں نہیں دے پا رہے۔ بات ماننے کے باوجود یہ خوف رہتا ہے کہ کوئی اٹھا نہ لے۔ یہ صرف میڈیا کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کا تعلق شہری آزادیوں سے ہے۔ این جی اوز پر بھی پابندیاں بڑھائی جارہی ہیں۔
میں نے مشورہ دیا کہ صحافیوں اور این جی اوز کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔
غازی صاحب نے کہا کہ عدالت کو سب معلوم ہے۔ سپریم کورٹ ازخود نوٹس بھی لے سکتی ہے۔ انھیں پتا ہے کہ کیا صورتحال ہے۔ عدالتوں میں کون سی بات سنی جائے گی اور کون سی نہیں سنی جائے گی، یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔
میں نے سوال اٹھایا کہ جب پرانے چینل تنخواہیں نہیں دے پا رہے تو نئے چینل کیسے آرہے ہیں؟
غازی صاحب نے کہا کہ میڈیا کی موجودہ صورتحال کا تاریک پہلو یہ ہے کہ صحافت میں پیشہ ورانہ روایت برقرار نہیں رہی۔ اب میڈیا میں جانب داری بہت ہوگئی ہے۔ پہلے میڈیا گروپس کا پیشہ ورانہ تعلق صحافت سے ہوتا تھا۔ اب کوئی بہت دولت مند ہے تو چینل کھول لیتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سرکار تک رسائی ہوجاتی ہے۔ کچھ اپنے کام نکلتے رہتے ہیں۔ اس صورتحال میں صحافت دھندلا گئی ہے اور اس میں خامیاں پیدا ہوگئی ہیں۔
میں نے دریافت کیا کہ پی ایف یو جے کے کئی دھڑے ہوچکے ہیں۔ ایک دھڑا نو اکتوبر سے تحریک چلانے کی بات کر رہا ہے۔ کیا اس سے کوئی فائدہ ہوگا؟
غازی صاحب نے کہا کہ صرف صحافیوں کو نہیں، سول سوسائٹی میں جتنے بھی روشن خیال طبقے ہیں، ان سب کو مل کر احتجاج کرنا چاہیے۔ لیکن اس طرح کی کوئی تنظیم موجود نہیں ہے اور اس طرح کا اتحاد بھی مجھے ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن جہاں بھی، جو بھی، جس قدر بھی آواز بلند کرسکتا ہے، جتنا بھی احتجاج کرسکتا ہے، کرنا چاہیے۔ بقول فیض:
چیخے ہے درد، اے دل برباد کچھ تو ہو
بولو کہ شور حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
بولو کہ روز عدل کی بنیاد کچھ تو ہو