گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر متاثر نہیں ہوگا؛ وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان

فائل فوٹو

گلگت بلتستان کے وزیرِ اعلیٰ حاجی گلبر خان نے گلگت بلتستان کو پاکستان کے آئینی دائرے میں شامل کرنے کے لیے گزشتہ ادوار میں ہونے والی پیش رفت کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ وفاق میں قائم ہونے والی آئندہ حکومت شمالی علاقہ جات کو باقاعدہ صوبے کا درجہ دے گی۔

گلگت میں وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کو انٹرویو میں گلبر خان کا کہنا تھا کہ قانون ساز اسمبلی نے یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کے آئینی دائرے میں شامل کرتے ہوئے صوبائی درجہ دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی کی وفاقی حکومتوں نے شمالی علاقہ جات کو پاکستان میں شامل کرنے کے حوالے سے کچھ کوششیں کیں اور اس ضمن میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کا اعلان بھی کیا لیکن عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کے خاتمے کے باعث یہ مسودہ پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکا۔

وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان نے کہا کہ وفاق میں قائم ہونے والی آئندہ منتخب حکومت کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کے ذریعے عوام کے اس دیرینہ مطالبے کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے ۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ چاروں صوبوں اور وفاق میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی وفاقی حکومت میں گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دے دے گی۔

Your browser doesn’t support HTML5

'گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر کو کوئی نقصان نہیں'

گلگت بلتستان پاکستان کے زیر انتظام تقریباً 73 ہزار مربع کلومیٹر (28 ہزار مربع میل) پر پھیلا ہوا ایک پہاڑی خطہ ہے۔

ماضی میں شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جانے والا گلگت بلتستان کا خطہ، 1947 سے بھارت اور پاکستان کے مابین تنازعے کا موضوع رہا ہے۔

'گلگت کو آئینی درجہ دینے سے مسئلہ کشمیر متاثر نہیں ہوتا'

گلبر خان نے کہا کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے سے مسئلہ کشمیر متاثر نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی کسی ملک کو اس عمل پر اعتراض ہوگا۔

مقامی رہنماؤں کے مطابق گلگت بلتستان کی عوام پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ساتھ انضمام کے حامی نہیں ہیں اور ایک علیحدہ پانچویں صوبے کی حیثیت سے پاکستان میں ضم ہونا چاہتی ہے۔ تاہم اسلام آباد میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ گلگت بلتستان کے پاکستان کا حصہ بننے سے مسئلہ کشمیر پر اسلام آباد کا مقدمہ متاثر ہو سکتا ہے۔

گلبر خان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کی عوام اور سیاسی جماعتیں اس بات پر اتفاق رائے کے ساتھ یک زبان ہیں کہ انہیں پاکستان کے آئینی دائرے میں شامل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ خطے کے لوگوں کو وہ آئینی حقوق چاہتے ہیں جو ملک کے دیگر حصوں کے لوگوں کو حاصل ہیں۔

ان کے بقول یہاں کے عوام 30 سال سے یہ کوشش کررہے ہیں کہ گلگت بلتستان کو آئینی اور قانونی صوبے کی حیثیت دی جائے جیسے پاکستان کے دیگر چار صوبوں کو حاصل ہے۔

بھارت کی جانب سے اگست 2019 میں اپنے زیر انتظام کشمیر کی خود مختار حیثیت کے خاتمے کے بعد گلگت بلتستان کو پاکستان کے پانچویں صوبے کا درجہ دینے کے لیے پارلیمنٹ سمیت فیصلہ ساز فورمز پر کافی بحث ہوئی تاہم تاحال اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔

گلگت بلتستان کے جنوب میں پاکستان کا زیرِ انتظام کشمیر، مغرب میں صوبۂ خیبر پختونخوا، شمال میں افغانستان کی واخان راہداری، مشرق اور شمال مشرق میں چین کا خطہ سنکیانگ جب کہ جنوب مشرق میں بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر اور لداخ ہیں۔

کچھ عرصے سے گلگت بلتستان کے بعض حصوں پر چین اور بھارت کے درمیان بھی تنازع چل رہا ہے۔

یہ بھی جانیے

گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی آخر وجہ کیا ہے؟ ٹی ٹی پی نے چترال کو کیوں ٹارگٹ کیا؟گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی برقرار، نیم فوجی دستے تعیناتپاکستان میں کوہ پیماوں اور پورٹرز کوبین الاقوامی تربیت کیسے دلوائی جائے؟

'گلگت کو این ایف سی میں حصہ دیا جائے'

گلبر خان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے این ایف سی ایوارڈ (نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ) میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے وفاق سے صوبوں کو حاصل ہونے والے فنڈز میں حصہ نہیں ملتا ہے نہ ہی وفاقی بجٹ میں فنڈزمختص کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاق سے گلگت بلتستان کو جو فنڈز ملتے ہیں وہ گرانٹ کی صورت میں ہیں نہ کہ مختص فنڈز کی صورت۔

وہ کہتے ہیں کہ کشمیر بھی پاکستان میں صوبائی درجہ نہیں رکھتا بلکہ الگ ریاست کی حیثیت ہے تاہم وفاق سے جاری ہونے والے سالانہ فنڈز میں اس کا حصہ مختص ہے جو کہ گلگت بلتستان کے معاملے میں نہیں ہے۔

گلبر خان نے کہا کہ گلگت بلتستان کا دیرینہ مطالبہ ہے این ایف سی ایوارڈ میں شامل کیا جائے جس سے اس علاقے کے لیے ڈیڑھ کھرب کے فنڈز مختص ہوجائیں گے جو کہ اس وقت نصف سے بھی کم مل پاتے ہیں۔

سال 2015 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کی آبادی لگ بھگ 18 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔

'گلگت بلتستان کو سی پیک کا کوئی منصوبہ نہیں دیا گیا'

وزیر اعلی گلگت بلتستان کا کہنا تھا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا چار سو سے زائد کلومیٹر کا حصہ شمالی علاقہ جات سے گزرتا ہے لیکن اس کے باوجود گلگت بلتستان میں سی پیک کا کوئی بڑا منصوبہ نہیں دیا گیا ہے۔

ان کے بقول سی پیک کے منصوبے سندھ میں لگے ہیں، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی کام ہوا لیکن سی پیک کے جتنے پروجیکٹس ہیں ان میں گلگت بلتستان میں ایک پروجیکٹ نہیں لگایا گیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

گلگت بلتستان کے نئے وزیرِ اعلیٰ حاجی گلبر خان کون ہیں؟

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے ثمرات ملک کے دیگر صوبوں کے عوام کی طرح گلگت بلتستان کے عوام کو بھی ملنے چاہئیں۔

گلبر خان نے کہا کہ ان کی حکومت کی بھی کوشش ہے کہ گلگت بلتستان کو سی پیک میں شامل کیا جائے کیوں کہ مقامی وسائل کی کمی کے باعث یہاں پر سڑکوں اور توانائی کے بڑے منصوبے سی پیک میں شامل ہوئے بغیر نہیں بن سکتے ہیں۔

'اسکردو انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے بین الاقوامی سیاحت کو فروغ ملا'

گلبر خان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان وسیع ثقافت کا حامل خطہ ہے اور علاقے میں سیاحت کا فروغ گلگت بلتستان حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری روایات اور ثقافت دیگر علاقوں سے منفرد ہے اور گلگت بلتستان کے ثقافتی تہوار بھی بین الاقوامی سیاحت کو راغب کرنے کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاحوں کو بہتر سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے روڈ انفراسٹرکچر کی بہتری اور ہوٹل انڈسٹری کو فروغ دینے کے حوالے سے صوبائی حکومت اقدامات کررہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں ملک کے کسی بھی دوسرے علاقے سے زیادہ سیاحت کے مواقع ہیں اور حکومت بین الاقوامی سیاحت کے فروغ کے لیے انٹرنیشنل ایئر لائنز کو راغب کررہی ہے اور امن و امان کا ماحول یقینی بنا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسکردو ایئر پورٹ کو انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا درجہ دینے سے غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوا ہے اور حکومت اسکردو کے بعد گلگت ایئر پورٹ کو بھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ بنانے پر کام کررہی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

موسمیاتی تبدیلی: اسکردو کن مسائل سے دوچار ہے؟

ان کے بقول اسکردو ایئرپورٹ پر دبئی سے انٹرنیشنل فلائٹ کے بعد استنبول سے بھی پرواز کے آنے پر بات چیت چل رہی ہے۔

گلبر خان نے کہا کہ بین الاقوامی سیاحوں کے ساتھ ساتھ حکومت مقامی سیاحوں کو بھی راغب کررہی ہے جن کی تعداد سالانہ 14 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

گلگت بلتستان پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں کے ٹو اور نانگا پربت سمیت8000 میٹر کی اونچائی کی پانچ اور 7000 میٹر بلند 50 سے زیادہ چوٹیاں موجود ہیں۔

قطبی خطوں سے باہر دنیا کے تین طویل ترین گلیشیئر بھی اسی علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان اور دنیا بھر سے سیاح اس خطے کا رخ کرتے ہیں اور یہاں ٹریکنگ اور کوہ پیمائی کی اہمیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ایس آئی ایف سی کے حوالے سے گفتگو کرتے گلبر خان نے کہا کہ گلگت بلتستان میں سیاحت، توانائی اور معدنیات میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں اور اس حوالے سے ایس آئی ایف سی کے حکومتی اقدامات کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاحت، توانائی اور معدنیات کے شعبوں میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

یاد رہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کی حکومت نے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) تشکیل دی ہے جس کے ذریعے سیاحت، معدنیات، توانائی اور زراعت کے شعبوں میں سرمایہ کاری لائی جائے گی۔