امریکی حکام کے مطابق گوانتانامو کے حراستی مرکز میں اب بھی 158 قیدی موجود ہیں جن میں سے نصف پر عائد الزامات یا تو واپس لے لیے گئے ہیں یا انہوں نے اپنی سزائیں مکمل کرلی ہیں
واشنگٹن —
امریکہ نے خلیجِ گوانتانامو میں قائم حراستی مرکز میں موجود مزید دو قیدیوں کو ان کے آبائی ملک سوڈان کے حوالے کردیا ہے جب کہ آنے والے دنوں میں مزید قیدیوں کی ان کے ملکوں کو منتقلی کی توقع کی جارہی ہے۔
امریکی حکام کے مطابق گوانتانامو کے حراستی مرکز میں اب بھی 158 قیدی موجود ہیں جن میں سے نصف پر عائد الزامات یا تو واپس لے لیے گئے ہیں یا انہوں نے اپنی سزائیں مکمل کرلی ہیں۔
تاہم، اس کے باوجود یہ افراد مختلف وجوہ کی بنیاد پر قید میں ہیں جن میں سرِ فہرست ان قیدیوں کے آبائی ممالک کی حکومتوں کا انہیں قبول کرنے سے انکار یا آبائی ملکوں کو حوالگی کے بعد ان پر تشدد کیے جانے کے خدشات ہیں۔
لیکن اب امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ ان افراد کو ان کے آبائی ملکوں یا کسی دوسری جگہ منتقلی کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔
امریکی محکمۂ دفاع نے بدھ کی شب جاری کیے جانے والے اپنے ایک بیان میں گوانتانامو میں قید سوڈانی نژاد نور عثمان محمد اور ابراہیم عثمان ابراہیم ادریس نامی دونوں قیدیوں کو سوڈان کی حکومت کے حوالے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بیان کے مطابق دونوں افراد دہشت گردی میں ملوث ہونے کے شبہ میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے گوانتانامو میں قید تھے۔
بیان کے مطابق نور عثمان محمد نے افغانستان میں 'القاعدہ' کے زیرِ انتظام ایک تربیتی مرکز میں کام کرنے کا اعتراف کیا تھا جس پر اسے 2011ء میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
تاہم امریکی حکومت نے 34ماہ قید میں رکھنے کے بعد نور عثمان کو اس کے آبائی ملک کے حوالے کردیا ہے جہاں امکان ہے کہ وہ سزا کی باقی ماندہ مدت کسی جیل میں گزارے گا۔
'پینٹا گون' کے مطابق ابراہیم عثمان نامی دوسرے قیدی کو اس کے وکلا کی جانب سے عدالت میں درخواست دائر کرنے کے نتیجے میں رہا کیا گیا ہے۔
ابراہیم کے وکلا نے درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ طویل مدت تک نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کا شکار رہنے کے بعد ان کا موکل اس قابل نہیں رہا کہ رہائی کے بعد کسی قسم کی عسکریت پسندی میں ملوث ہوسکے۔
ان دونوں افراد کی سوڈان حوالگی سے قبل امریکی حکومت نے رواں ہفتے سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے دو قیدیوں کو بھی ان کے آبائی وطن کے حوالے کیا تھا۔
امریکی حکام کے مطابق سعودی حکومت نے ان دونوں قیدیوں پر دورانِ حراست تشدد نہ کرنے اور ان کی دوبارہ شدت پسند گروہوں میں شمولیت روکنے کی یقین دہانی کرائی تھی جس کےبعد انہیں سعودی عرب کے حوالے کیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ آئندہ دنوں میں کیوبا کے نزدیک ایک جزیرے پر قائم گوانتانامو کے حراستی مرکز سے مزید قیدیوں کی ان کے آبائی ملکوں کو منتقلی متوقع ہے۔
خیال رہے کہ صدر براک اوباما نے اپنی پہلی انتخابی مہم کے دوران میں اس قید خانے کو بند کرنے اور تمام ملزمان کو کہیں اور منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
صدر اوباما نے بعد ازاں اس قید خانے کو بند کرنے کے حکم نامے پر بھی دستخط کیے تھے تاہم کانگریس کی جانب سے کھڑی کی جانے والی بعض قانونی رکاوٹوں کے باعث اس حکم نامے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔
صدر اوباما کے ناقدین کا کہنا ہے کہ درحقیقت اوباما انتظامیہ نے بھی کانگریس کی جانب سے پیدا کی جانے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی تھی۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ گوانتانامو میں اب بھی 80 کے لگ بھگ ایسے قیدی موجود ہیں جن کے خلاف مقدموں کی کاروائی جاری ہے یا اب تک شروع ہی نہیں ہوئی۔
امریکی حکام کے مطابق گوانتانامو کے حراستی مرکز میں اب بھی 158 قیدی موجود ہیں جن میں سے نصف پر عائد الزامات یا تو واپس لے لیے گئے ہیں یا انہوں نے اپنی سزائیں مکمل کرلی ہیں۔
تاہم، اس کے باوجود یہ افراد مختلف وجوہ کی بنیاد پر قید میں ہیں جن میں سرِ فہرست ان قیدیوں کے آبائی ممالک کی حکومتوں کا انہیں قبول کرنے سے انکار یا آبائی ملکوں کو حوالگی کے بعد ان پر تشدد کیے جانے کے خدشات ہیں۔
لیکن اب امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ ان افراد کو ان کے آبائی ملکوں یا کسی دوسری جگہ منتقلی کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔
امریکی محکمۂ دفاع نے بدھ کی شب جاری کیے جانے والے اپنے ایک بیان میں گوانتانامو میں قید سوڈانی نژاد نور عثمان محمد اور ابراہیم عثمان ابراہیم ادریس نامی دونوں قیدیوں کو سوڈان کی حکومت کے حوالے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بیان کے مطابق دونوں افراد دہشت گردی میں ملوث ہونے کے شبہ میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے گوانتانامو میں قید تھے۔
بیان کے مطابق نور عثمان محمد نے افغانستان میں 'القاعدہ' کے زیرِ انتظام ایک تربیتی مرکز میں کام کرنے کا اعتراف کیا تھا جس پر اسے 2011ء میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
تاہم امریکی حکومت نے 34ماہ قید میں رکھنے کے بعد نور عثمان کو اس کے آبائی ملک کے حوالے کردیا ہے جہاں امکان ہے کہ وہ سزا کی باقی ماندہ مدت کسی جیل میں گزارے گا۔
'پینٹا گون' کے مطابق ابراہیم عثمان نامی دوسرے قیدی کو اس کے وکلا کی جانب سے عدالت میں درخواست دائر کرنے کے نتیجے میں رہا کیا گیا ہے۔
ابراہیم کے وکلا نے درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ طویل مدت تک نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کا شکار رہنے کے بعد ان کا موکل اس قابل نہیں رہا کہ رہائی کے بعد کسی قسم کی عسکریت پسندی میں ملوث ہوسکے۔
ان دونوں افراد کی سوڈان حوالگی سے قبل امریکی حکومت نے رواں ہفتے سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے دو قیدیوں کو بھی ان کے آبائی وطن کے حوالے کیا تھا۔
امریکی حکام کے مطابق سعودی حکومت نے ان دونوں قیدیوں پر دورانِ حراست تشدد نہ کرنے اور ان کی دوبارہ شدت پسند گروہوں میں شمولیت روکنے کی یقین دہانی کرائی تھی جس کےبعد انہیں سعودی عرب کے حوالے کیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ آئندہ دنوں میں کیوبا کے نزدیک ایک جزیرے پر قائم گوانتانامو کے حراستی مرکز سے مزید قیدیوں کی ان کے آبائی ملکوں کو منتقلی متوقع ہے۔
خیال رہے کہ صدر براک اوباما نے اپنی پہلی انتخابی مہم کے دوران میں اس قید خانے کو بند کرنے اور تمام ملزمان کو کہیں اور منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
صدر اوباما نے بعد ازاں اس قید خانے کو بند کرنے کے حکم نامے پر بھی دستخط کیے تھے تاہم کانگریس کی جانب سے کھڑی کی جانے والی بعض قانونی رکاوٹوں کے باعث اس حکم نامے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔
صدر اوباما کے ناقدین کا کہنا ہے کہ درحقیقت اوباما انتظامیہ نے بھی کانگریس کی جانب سے پیدا کی جانے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی تھی۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ گوانتانامو میں اب بھی 80 کے لگ بھگ ایسے قیدی موجود ہیں جن کے خلاف مقدموں کی کاروائی جاری ہے یا اب تک شروع ہی نہیں ہوئی۔