واشنگٹن —
صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ گوانتانامو بے کے حراستی مرکز میں ہونے والی ساری کارروائی کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے گا۔
اُنھوں نے یہ بات منگل کی شام وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک اخباری کانفرنس سے خطاب میں کہی۔
گوانتانامو بے میں امریکی فوج کے متنازع حراستی مرکز کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ اس قیدخانے کے بند کروانے کی دوبارہ کوشش کریں گے، جس کا وعدہ اُنھوں نے 2008ء کی اپنی انتخابی مہم میں کیا تھا۔
اُن کے الفاظ میں، ’میں اس بات پر دوبارہ توجہ دوں گا۔ میں نے اپنی ٹیم سے کہا ہے کہ گواتانامو میں اس وقت جو بھی کارروائی ہو رہی ہے اس کا دوبارہ جائزہ لیں، ہر اُس چیز کا جو ہم انتظامی لحاظ سے کر سکتے ہیں۔ اور، میں کانگریس سے بھی دوبارہ بات کروں گا تاکہ یہ واضح کر سکوں کہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو امریکہ کے بہترین مفاد میں ہے۔‘
ادھر شام کے بارے میں، صدر براک اوباما نے کہا کہ اگر امریکہ کو یہ تاثر قائم کرنا ہے کہ شامی حکومت نے اپنے لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں تو اسے متعدد متبادلات پر دوبارہ غور کرنا ہوگا۔
لیکن صدر نے کہا کہ مزید کوئی اقدامات کرنے سے پہلے اُنھیں مزید معلومات درکار ہو گی۔
صدر کے الفاظ میں، جب میں امریکہ کی قومی سلامتی کے بارے میں فیصلے کروں اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں اضافی اقدامات کا امکان ہو تو مجھے یہ یقینی بنانا ہے کہ مجھے تمام حقائق میسر ہیں۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ اس بارے میں شہادت موجود ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کو یہ علم نہیں کہ یہ ہتھیار کس نے کیسے اور کہاں استعمال کیے۔
گذشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس نے قانون سازوں کو بتایا تھا کہ اعتماد کے مختلف درجوں کے تحت وائٹ ہاؤس یہ سمجھتا ہے کہ صدر بشارالاسد کی شامی حکومت نے شام کی خانہ جنگی میں قلیل مقدار میں ’سارین گیس‘ استعمال کی ہے جو کہ ایک کیمیائی ہتھیار ہے۔
منگل کے روز صدر نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کھیل تبدیل کردے گا اور کہا کہ انھوں نے گذشتہ برس پینٹاگان سے اس سے نمٹنے کے اضافی اقدامات کے بارے میں استفسار کیا تھا۔
دو ہفتے قبل، بوسٹن میراتھون میں بم دھماکوں کی چھان بین کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں مسٹر اوباما نے کہا کہ روس اس سلسلے میں بے حد تعاون کر رہا ہے۔
اُنھوں نے پیر کے روز روسی صدر ولادی میر پیوتن سے فون پر اِس سلسلے میں اور دیگر امور پر گفتگو بھی کی تھی۔
صدر کے الفاظ میں، ’اُنھوں نے وعدہ کیا کہ وہ اِس بارے میں میرے ساتھ مل کر کام کریں گے کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ جو لوگ ہمیں اطلاعات فراہم کرتے ہیں وہ آپس میں مکمل تعاون کریں، نہ صرف اِس چھان بین میں بلکہ انسدادِ دہشت گردی کی ہماری عمومی کوششوں میں بھی‘۔
صدر نے کہا کہ وہ بعد میں اسی ہفتے میکسیکو کے دورے میں صدر اینرک پینا نائٹو سے ملاقات کے منتظر ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ کئی ملاقاتوں کے برعکس، اس مرتبہ کی ملاقات میں توجہ اقتصادی امور پر مرکوز رہے گی۔
اِس دورے کے موقع پر صدر وسط امریکی ممالک اور کوسٹا ریکا میں ڈمنیکن ریپبلک کے لیڈروں سے بھی ملاقات کریں گے۔
اُنھوں نے یہ بات منگل کی شام وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک اخباری کانفرنس سے خطاب میں کہی۔
گوانتانامو بے میں امریکی فوج کے متنازع حراستی مرکز کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ اس قیدخانے کے بند کروانے کی دوبارہ کوشش کریں گے، جس کا وعدہ اُنھوں نے 2008ء کی اپنی انتخابی مہم میں کیا تھا۔
اُن کے الفاظ میں، ’میں اس بات پر دوبارہ توجہ دوں گا۔ میں نے اپنی ٹیم سے کہا ہے کہ گواتانامو میں اس وقت جو بھی کارروائی ہو رہی ہے اس کا دوبارہ جائزہ لیں، ہر اُس چیز کا جو ہم انتظامی لحاظ سے کر سکتے ہیں۔ اور، میں کانگریس سے بھی دوبارہ بات کروں گا تاکہ یہ واضح کر سکوں کہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو امریکہ کے بہترین مفاد میں ہے۔‘
ادھر شام کے بارے میں، صدر براک اوباما نے کہا کہ اگر امریکہ کو یہ تاثر قائم کرنا ہے کہ شامی حکومت نے اپنے لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں تو اسے متعدد متبادلات پر دوبارہ غور کرنا ہوگا۔
لیکن صدر نے کہا کہ مزید کوئی اقدامات کرنے سے پہلے اُنھیں مزید معلومات درکار ہو گی۔
صدر کے الفاظ میں، جب میں امریکہ کی قومی سلامتی کے بارے میں فیصلے کروں اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں اضافی اقدامات کا امکان ہو تو مجھے یہ یقینی بنانا ہے کہ مجھے تمام حقائق میسر ہیں۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ اس بارے میں شہادت موجود ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کو یہ علم نہیں کہ یہ ہتھیار کس نے کیسے اور کہاں استعمال کیے۔
گذشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس نے قانون سازوں کو بتایا تھا کہ اعتماد کے مختلف درجوں کے تحت وائٹ ہاؤس یہ سمجھتا ہے کہ صدر بشارالاسد کی شامی حکومت نے شام کی خانہ جنگی میں قلیل مقدار میں ’سارین گیس‘ استعمال کی ہے جو کہ ایک کیمیائی ہتھیار ہے۔
منگل کے روز صدر نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کھیل تبدیل کردے گا اور کہا کہ انھوں نے گذشتہ برس پینٹاگان سے اس سے نمٹنے کے اضافی اقدامات کے بارے میں استفسار کیا تھا۔
دو ہفتے قبل، بوسٹن میراتھون میں بم دھماکوں کی چھان بین کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں مسٹر اوباما نے کہا کہ روس اس سلسلے میں بے حد تعاون کر رہا ہے۔
اُنھوں نے پیر کے روز روسی صدر ولادی میر پیوتن سے فون پر اِس سلسلے میں اور دیگر امور پر گفتگو بھی کی تھی۔
صدر کے الفاظ میں، ’اُنھوں نے وعدہ کیا کہ وہ اِس بارے میں میرے ساتھ مل کر کام کریں گے کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ جو لوگ ہمیں اطلاعات فراہم کرتے ہیں وہ آپس میں مکمل تعاون کریں، نہ صرف اِس چھان بین میں بلکہ انسدادِ دہشت گردی کی ہماری عمومی کوششوں میں بھی‘۔
صدر نے کہا کہ وہ بعد میں اسی ہفتے میکسیکو کے دورے میں صدر اینرک پینا نائٹو سے ملاقات کے منتظر ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ کئی ملاقاتوں کے برعکس، اس مرتبہ کی ملاقات میں توجہ اقتصادی امور پر مرکوز رہے گی۔
اِس دورے کے موقع پر صدر وسط امریکی ممالک اور کوسٹا ریکا میں ڈمنیکن ریپبلک کے لیڈروں سے بھی ملاقات کریں گے۔