اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے منگل کو ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2017 کے بعد سے سال 2022 مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے تارکین وطن کے لیے سب سے ہلاکت خیز سال رہا ہے۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے لاپتہ افراد سے متعلق ایک پروجیکٹ کے اعداد و شمار جاری کئے ہیں جن کے مطابق سال 2022 میں تقریباً 3,800 افراد سمندری اور زمینی ذرائع سے ترک وطن کرتے ہوئے ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی سمندری حدود کے اندر یا وہاں پہنچنے کی کوشش میں ہلاک ہوئے۔
یہ تعداد2017 کے بعد سے ترک وطن کے خواہش مند افراد کی ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے ، جب اس پروجیکٹ نے پہلی مرتبہ خطے میں 4,255 اموات کا اندراج کیا تھا۔ یہ تعداد سال 2021 کے مقابلے میں 11 فیصد زیادہ ہے۔ سال 2022 کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں غیر قانونی ترک وطن کے دوران ہونےوالی 6,877 اموات میں سے نصف سے زیادہ اموات مشرق وسطیٰ شمالی افریقہ خطے میں ہوئیں۔
تنظیم کے ریجنل ڈائریکٹر، عثمان بیلبیسی،کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی ، شمالی افریقہ خطے میں، نقل مکانی کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی یہ خطرناک تعداد مطالبہ کرتی ہے کہ تارکین وطن کی حفاظت اور تحفظ کو بڑھانے کے لیے فوری توجہ اور ٹھوس کوششیں کی جائیں۔
زمینی سفر کے دوران سب سے زیادہ اموات جنگ زدہ یمن میں ہوئیں۔
مشرقی افریقی تارکین وطن جبوتی اور یمن کو الگ کرنے والی 50 کلومیٹر لمبی آبنائے باب المندب کو چھوٹی کشتیوں پر عبور کرتے تھے، جس کا مقصد یمن کو عبور کر کے ہمسایہ ملک سعودی عرب اور پھر روزگار کی تلاش میں دوسری امیر عرب خلیجی ریاستوں میں جاناہوتا تھا۔
اعداد و شمار کے مطابق لیبیا زمینی راستوں پر 117 اموات ہوئیں ،جو حالیہ برسوں میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں جنگوں اور غربت سے فرار ہو کر یورپ جانے والے تارکین وطن کے لیے ایک ٹرانزٹ پوائنٹ بن گیا تھا ، جبکہ لیبیا کے پڑوسی ملک الجزائر میں 54 اموات ہوئیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022 میں افراتفری سے متاثرہ لیبیا کے قریب بحیرہ روم میں 800 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سے کم از کم 46 کشتیوں کے ڈوبنےسے 713 افراد ہلاک ہو ئے اور 94 تارکین وطن کی لاشیں بہہ کر ساحل پر آگئیں۔
شمالی افریقہ سے اسپین کے کینری جزائر کے لیے مغربی افریقہ اٹلانٹک کے راستے روانہ ہونے والی کشتیوں میں گزشتہ سال 559 افراد کی جانیں گئیں لیکن یہ تعداد 2021 کے مقابلے میں کم ہے جب مبینہ طور پر کم از کم 1,126 افراد اس سفر کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔
دوسری طرف ، اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے بدھ کو اطلاع دی کہ جبری بے دخلیوں کے بارے میں عالمی رجحانات کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں، جنگ، ظلم و ستم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونے والے لوگوں کی تعداد سال 2022 میں تقریباً دس کروڑ اسّی لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ ریکارڈ تعداد یوکرین کی جنگ اور افغان مہاجرین کے لیے نظرثانی شدہ اندازوں میں اضافے کی وجہ سے تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سوڈان میں اپریل کے وسط میں ہونے والی لڑائی نے بڑے پیمانے پر زبردستی بے گھر ہونے والے لوگوں کی موجودہ عالمی تعداد کو 110 ملین تک پہنچا دیا ہے۔ایک دہائی قبل یہ تعداد چار کروڑ ستائیس لاکھ تھی۔
SEE ALSO: بحیرہ روم میں تارکین وطن کی ہلاکتوں میں ریکارڈ اضافہپناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فلیپو گرانڈی کا کہنا ہے کہ یہ تعداد ہر سال، بڑھ رہی ہے۔
گرانڈی نے کہا،نقل مکانی میں یہ اضافہ اکثر وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں ہوا ہے، خاص طور پر سوڈان اور یوکرین میں ۔ گرانڈی نے کہا، کہ عموماً تاثر یہ ہے کہ تمام مہاجرین امیر ممالک میں جانا چاہتے ہیں یہ دراصل غلط ہے حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں میں سے ستر فیصد، یعنی تقریباً 35 ملین، دراصل فرار ہو کر اپنے پڑوسی ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن ان میں سے زیادہ تر دراصل اپنے گھر واپس آنا چاہتے ہیں۔
(اس رپورٹ کو وی او اے کی ٹیم نے ترتیب دیا)