پاکستان میں حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے پارلیمنٹ کی کارروائی کو آگے بڑھانے کے لیے ایک مفاہمت کی ہے جس کے مطابق ایوان میں ہنگامہ آرائی سے گریز کیا جائے گا۔
سیاسی حلقوں کے مطابق یہ اتفاق رائے بجٹ پر بحث کے دوران ایک دوسرے کو بات کرنے کا موقع دینے کے لیے کیا گیا ہے جس کے بعد یہ واضح امکانات ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے اعتراضات کے باوجود پارلیمنٹ سے بجٹ منظور ہو جائے گا۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان متعدد بار یہ شکوہ کر چکے ہیں کہ انھیں پارلیمنٹ کے اندر بات نہیں کرنے دی جاتی، اپوزیشن شور مچاتی ہے اور یوں ایوان کا ماحول خراب ہوتا ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کا یہ موقف رہا ہے کہ حکومت نیب کے ساتھ مل کر اپوزیشن رہنماؤں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنا رہی ہے لہذٰا پارلیمان ہی وہ واحد فورم ہے جہاں اپوزیشن عوام تک اپنی آواز پہنچا سکتی ہے۔
حکومت، اپوزیشن مفاہمت ہے کیا؟
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایوان کی کارروائی چلانے پر حکومت کے ساتھ مختلف امور پر اتفاق رائے ہوا ہے اور اب دونوں جانب سے ایک دوسرے کی بات سنی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ یہ مفاہمت اس لیے بھی کی گئی ہے تاکہ اپوزیشن کی آواز عوام تک پہنچ سکے، ان کے بقول حکومت کے پاس اپنی بات عوام تک پہنچانے کے بہت سے ذرائع ہیں تاہم پارلیمینٹ میں ہنگامہ آرائی کی وجہ سے اپوزیشن کی بات عوام تک موثر انداز میں نہیں پہنچ رہی۔
وفاقی وزیر غلام سرور خان نے بھی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اپوزیشن اراکین حکومتی وزراء کو بات نہیں کرنے دیتے تھے جس کے جواب میں حکومتی اراکین نے بھی اپوزیشن رہنماؤں کی تقاریر میں خلل ڈالا۔ ان کے بقول اب یہ اتفاق ہوا ہے کہ ایک دوسرے کی بات تحمل سے سنی جائے گی۔
کیا اب بجٹ منظور ہو جائے گا؟
حکومت کی جانب سے پیش کردہ مالی سال 2020-2019 کے بجٹ کو اپوزیشن نے مسترد کرتے ہوئے اسے پارلیمنٹ سے منظور نہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ تاہم حالیہ مفاہمت کے بعد سیاسی حلقوں کے مطابق بجٹ منظور ہونے کے قوی امکانات ہیں۔
سینئر صحافی اعجاز احمد کہتے ہیں کہ حکومت کو بجٹ منظوری میں اپوزیشن کی جانب سے مخالفت اور دشواری کا سامنا ہوگا تاہم ان کے بقول حکومت بجٹ منظور کروانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اسپیکر کی جانب سے آصف زرداری اور خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر خوش نہیں جس کی وجہ سے امکان ہے کہ وہ بجٹ اجلاس سے خطاب نہ کریں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر کہتے ہیں کہ بجٹ کی منظوری کا دارومدار اپوزیشن اور حکومت کے اراکین کی بجٹ منظوری کے وقت ایوان میں موجودگی پر ہے جس کا فیصلہ بجٹ منظوری کے وقت ہی ہوگا۔
مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ منظور نہ ہونے دینے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بلاول بھٹو اپنے والد آصف زرداری جبکہ مریم نواز اپنے چچا شہباز شریف کے بیانیے کی نفی کر رہی ہیں۔
بلاول اور مریم کا موقف
خیال رہے کہ مریم نواز نے ہفتے کے روز ایک پریس کانفرنس میں حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون نہ کرنا کا اعلان کیا تھا، انھوں نے حکومت کی جانب سے مجوزہ میثاق معیشت کو بھی مذاق معیشت قرار دے دیا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری بھی بجٹ کی منظوری کے خلاف اپوزیشن جماعتوں اور اتحادیوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے، تاہم سیاسی حلقے اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ پارلیمینٹ کے اندر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اپنے ان قائدین کی بات کو کتنا وزن دیں گے۔
پارلیمینٹ میں کیا کچھ ہوتا رہا
گزشتہ دس ماہ کے دوران قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت اور اپوزیشن اراکین کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا ہے، بعض اوقات بات ہاتھا پائی تک بھی پہنچتی رہی ہے۔
حال ہی میں بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے، جبکہ جواب میں حکومت کی جانب سے بھی اپوزیشن اراکین کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔
اپوزیشن رہنما قومی احتساب بیورو(نیب) کی کارروائیوں کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہوئے پارلیمنٹ میں احتجاج کرتے رہے ہیں، جبکہ آصف زرداری اور خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈرز جاری نہ ہونے پر بھی اپوزیشن ایوان میں سراپا احتجاج رہی ہے۔
جمعرات کے روز اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے سابق صدر آصف زرداری اور خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈرز جاری ہونے کے بعد قومی اسمبلی کی کارروائی پرامن انداز میں جاری رہی۔