پاک، افغان سرحد: منقسم قبائل کو آمدورفت کے لیے خصوصی پاسز جاری کرنے کا فیصلہ

فائل فوٹو

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کی انتظامیہ نے پاک، افغان سرحد کے دونوں اطراف منقسم قبائل کو آمدورفت میں سہولت کے لیے خصوصی اجازت نامے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ خصوصی اجازت نامہ ایک پاس یا کارڈ کی صورت میں جاری کیا جائے گا، تاہم یہ سہولت صرف پاکستانی شناخٹی کارڈ رکھنے والے قبائل کے لیے ہے جو باڑ لگنے کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔

شمالی وزیرستان کے مرکزی انتظامی شہر میران شاہ سے تعلق رکھنے والے صحافی حاجی مجتبیٰ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کارڈ ہولڈر غلام خان سرحدی گزرگاہ کے ذریعے آمدورفت جاری رکھ سکیں گے۔

شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر ریحان گل خٹک نے اس منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیش کش افغانستان میں خوست، پکتیا اور پکتیکا میں رہنے والے پاکستانی شناختی کارڈ ہولڈرز کے لیے ہو گی۔

اُنہوں نے کہا کہ منقسم قبائل کابل خیل، مداخیل، سیدگی اور گربز کے ضرورت مند افراد کو خصوصی گیٹ پاس جاری کیے جائیں گے۔

ریحان گل خٹک کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبے کے تحت خواہش مند افراد کو خصوصی کارڈز کے لیے فارمز جاری کیے جائیں گے۔

کارڈ کے خواہش مند افراد فارم پُر کرکے متعلقہ تحصیل دار کے پاس جمع کرائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کاغذات کی مکمل تصدیق کے بعد خصوصی گیٹ پاس جاری کیے جائیں گے۔

ریحان گل خٹک نے کہا کہ خصوصی کارڈز کے ذریعے منقسم اقوام کے افراد غلام خان بارڈر پر باآسانی آمد و رفت کرسکیں گے۔


شمالی وزیرستان کے سرکردہ قبائلی رہنما ملک خالد خان داوڑ نے ضلعی انتظامیہ کے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سہولت سرحد پار افغانستان کے اُن قبائل کو بھی دینی چاہیے جن کی پاکستان میں جائیدادیں اور رشتے داریاں ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ اگر دونوں جانب سے قبائل کو آزادانہ نقل وحرکت کی اجازت مل جائے تو یہی قبائل نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے میں کردار ادا کریں گے بلکہ شر پسندوں پر بھی نظر رکھیں گے۔

ملک خالد خان کے بقول پوری دنیا میں اب تجارت کے فروغ اور نقل و حرکت میں آسانی کے لیے ہمسایہ ملک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔

پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے قائم ادارے این ڈی ایم اے کے ترجمان احسان داوڑ کہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان سے جون 2014 کے وسط میں عسکریت پسندوں کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن ضربِ عضب کے بعد اب تک 11 ہزار خاندان افغانستان سے واپس آ چکے ہیں۔

اُن کے بقول اب بھی پانچ ہزار کے لگ بھگ گھرانے خوست میں پاکستان واپسی کے منتظر ہیں۔

لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ان خصوصی کارڈز کا اطلاق نقل مکانی کرنے والوں پر نہیں ہے جو خوست میں مقیم ہیں۔

یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ زیادہ تر نقل مکانی کرنے والوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کی واپسی کا عمل بہت سست اور پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔