رسائی کے لنکس

آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 170 ارب روپے کے ٹیکس لگانا ہوں گے: اسحاق ڈار


وزیرِ خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ فائل فوٹو
وزیرِ خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ فائل فوٹو

پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بعد 170 ارب روپے کے ٹیکس لگانا ہوں گے جب کہ پیٹرولم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی مزید 10 روپے اضافہ کرنا ہے۔

اسحاق ڈار نے جمعے کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ دس روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے دوران توانائی اور مالیاتی شعبوں میں اصلاحات سمیت محصولات پر بات چیت ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے میمورنڈم آن اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز [ایم ای ایف پی] کا ڈرافٹ آج صبح موصول ہو چکا ہے جس پر حکومت غور کر رہی ہے۔

وزیرِ خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں کوئی ابہام نہیں ہے، حکومت اپنے تمام وعدے پورے کرے گی اور پروگرام پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

ان کے بقول، آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد پاکستان کو تقریباً ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر مل سکیں گے۔

وزیر خزانہ کے مطابق محصولات کو پورا کرنے کے لیے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے جائیں گے جس کے لیے قانونی سازی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہیں جن کے ذریعے گردشی قرضے کم کرنے کے لیے سبسڈیز کو کم کیا جائے گا۔

اسحاق ڈار کے مطابق پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں اضافہ تقریباً پورا ہو چکا ہے لیکن ڈیزل پر لیوی چالیس سے بڑھا کر پچاس کرنا ہے۔ ان کے بقول ڈیزل کی قیمت میں 10 روپے کا اضافہ دو مراحل میں یکم مارچ سے کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ قرض کے حصول کے لیے پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے وفد کے درمیان 31 جنوری سے نو فروری تک اسلام آباد میں مذاکرات کا عمل جاری رہا۔

آئی ایم ایف نے اسلام آباد سے وفد کی روانگی کے بعد جمعے کو جاری ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ملکی اور بیرونی مالیاتی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے پالیسی اقدامات پر خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔

تاہم آئی ایم ایف نے پریس ریلیز میں مذاکرات کی کامیابی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ جمعے کو صحافیوں نے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے اس سے متعلق سوال کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے بقول آئی ایم ایف وفد مذاکرات کے دوران مطمئن تھا اور وزیرِ اعظم نے بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے دی گئی تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

'آئندہ دنوں میں مذاکرات دوبارہ ہوں گے'

آئی ایم ایف نے جمعے کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ قرض کے حصول کے لیے جاری مذاکرات کا عمل آئندوں دنوں میں بھی جاری رہے گا۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول ایگریمنٹ طے نہیں پاسکا۔ تاہم آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اُن کی ٹیم پاکستان کے میکرو اکنامک استحکام کے تحفظ کے لیے درکار پالیسیوں پر عمل درآمد سے متعلق وزیرِ اعظم کے عزم کا خیر مقدم کرتی ہے۔

آئی ایم ایف نے اپنے بیان میں سب سے زیادہ کمزور اور سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی مدد کے لیے سماجی تحفظ کو بڑھانے پر زور دیا ہے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کو جو ترجیحات پیش کی ہیں ان میں زرِ مبادلہ کی کمی کو بتدریج ختم کرنے کے لیے زرِ مبادلہ کی شرح کو مارکیٹ میں طے کرنے کی اجازت دینا؛ گردشی قرضے کو مزید جمع ہونے سے روکنا اور توانائی کے شعبے کی عمل داری کو یقینی بنا کر توانائی کی فراہمی کو بڑھانا شامل ہے۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں کے بروقت اور فیصلہ کن نفاذ کے ساتھ شراکت داروں کی پُرعزم مالی معاونت پاکستان کے لیے میکرو اکنامک استحکام کو کامیابی کے ساتھ دوبارہ حاصل کرنے اور پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے اہم ہے۔

عالمی مالیاتی فنڈ کے مطابق پالیسیوں کے نفاذ کی تفصیلات کو حتمی شکل دینے کے لیے آنے والے دنوں میں ورچوئل بات چیت جاری رہے گی۔

ماہر معاشیات اور مصنف یوسف نذر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے پیسوں کے حصول سے قبل فنڈ کو پیشگی اقدامات سے مطمئن کرنا ضروری ہے۔

اُن کے بقول فنانس بل کے ذریعے 170 ارب روپے کے ٹیکسز کا نفاذ، بجلی اور گیس کے شعبے میں گردشی قرضے کم کرنے کے لیے اقدامات، پیٹرولیم مصنوعات پر وعدے کے مطابق لیوی عائد کرنے سمیت دیگر اقدامات شامل ہیں۔ دوسری جانب صرف آئی ایم ایف سے کیا جانے والا معاہدہ کافی نہیں ہوگا بلکہ قرضے ری شیڈول کرنے کے لیے بات چیت بھی کرنا پڑے گی۔

ادھر سابق ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک مرتضیٰ سید نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم کا بغیر کسی معاہدے کے جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے دوران اکثر کچھ اختلافات سامنے آجاتے ہیں جو باقی رہتے ہیں یا انہیں دور کرنے کے لیے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے بعض اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

لیکن ان کے خیال میں اہم مسئلہ یہ ہے کہ باقی رہنے والے اختلافات کتنے بڑے ہیں۔ بعض اوقات، وہ اتنے اہم نہیں ہوتے ہیں اور کچھ دنوں میں حل کر لیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی معاہدے تک پہنچنے میں کچھ محدود وقت بہت بڑا مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اگر یہ ایک ماہ یا اس سے زیادہ وقت تک جاری رہتا ہے تو پھر یقیناً مشکلات بڑھ سکتی ہیں کیوں کہ ہمارے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی نازک سطح پر جا پہنچے ہیں۔

اس دوران حکومت اور آئی ایم ایف کی جانب سے دیے گئے اشارے سمجھنے کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگلا قدم اسٹاف لیول ایگریمنٹ کا ہوتا ہے۔ پھر اس کی منظوری آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ دیتا ہے اور بورڈ کی منظوری اور اسٹاف لیول ایگریمنٹ میں ایک ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کے مرکزی بینک کے مطابق ملک کے پاس غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر ساڑھے آٹھ ارب ڈالرز کے رہ گئے ہیں۔ ان میں سے بینکوں کے پاس 5.6 ارب ڈالرز جب کہ مرکزی بینک کے پاس ایک ہفتے میں 33 ملین ڈالر کے ذخائر کم ہونے کے بعد محض 2.9 ارب ڈالر کے رہ گئے ہیں جو کہ نو سال کی انتہائی کم سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے ٹیکسز کے نفاذ، گردشی قرضے کم کرنے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے، محصولات پورا کرنے کے لیے لیوی ڈیوٹی مزید عائد کرنے سے آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالر کی قرض کی نئی قسط تو مل جائے گی۔

ماہرین کے مطابق دیگر ممالک سے قرضوں کی واپسی میں مزید وقت ملنے کی راہ بھی ہموار ہوجائے گی مگر دوسری جانب ملک میں ایسے وقت میں مہنگائی مزید زور پکڑے گی جب افراط زر کی شرح 27 فی صد اور غذائی اشیا میں مہنگائی کا تناسب 35 فی صد کے لگ بھگ پہنچ چکا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG