بھارت کی حکومت نے مبینہ شدت پسند مسلم تنظیم ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ (پی ایف آئی) پر پانچ برس کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔
اس سے قبل نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے ملک گیر سطح پر اس تنظیم کے دفاتر اور عہدے داروں کی رہائش گاہوں پر 22 اور 27 ستمبر کو چھاپے مارے تھے۔ اس کارروائی کے دوران تنظیم کے قومی صدر اور ریاستی صدور سمیت اس سے وابستہ 240 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ حکومت نے گرفتار کیے گئے افراد پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
حکومت نے پی ایف آئی کے علاوہ ریہاب انڈیا فاونڈیشن، کیمپس فرنٹ آف انڈیا، آل انڈیا امام کونسل، نیشنل فیڈریشن آف ہیومن رائٹس آرگنائزیشن، نیشنل ویمنس فرنٹ، جونئیر فرنٹ اور ایماور انڈیا فاونڈیشن پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔حکومت کے مطابق ان تنظیموں کا تعلق پی ایف آئی سے ہے۔
واضح رہے کہ کیمپس فرنٹ آف انڈیا پی ایف آئی کی اسٹوڈنٹس شاخ ہے اور کرناٹک میں حجاب تنازع کے لیے اسے مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔
حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ایف آئی کا تعلق کالعدم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی)، جماعت المجاہدین بنگلہ دیش (جے ایم بی) اور داعش سے ہے۔ اس کے مطابق پی ایف آئی متعدد مجرمانہ اور دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے۔ اس پر غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے قانون ’یو اے پی اے ‘کے تحت پابندی عائد کی گئی ہے۔
وزارت داخلہ کا مزید کہنا ہے کہ پی ایف آئی دیگر ممالک سے فنڈ حاصل کرتا ہے اور فرنٹ عالمی دہشت گرد گروپوں کے نظریات سے متاثر ہے جس کے باعث یہ ملک کی داخلی سلامتی کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔
بھارت کے جنوب میں واقع ریاستوں کیرالہ، کرناٹک اور تمل ناڈو میں سرگرم تین مسلم تنظیموں نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ (این ڈی ایف)، کرناٹک فورم فار ڈگنٹی (کے ایف ڈی) اور منیتھا نیتھی پسرائی (ایم این پی) نے 2006 میں باہمی انضمام کے بعد ایک متحدہ پلیٹ فارم کے قیام کا فیصلہ کیا تھا۔اس کے بعد انہوں نے 16 فروری 2007 کو بنگلور میں ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ (پی ایف آئی) نامی تنظیم کے قیام کا اعلان کیا۔
پی ایف آئی کا دعویٰ ہے کہ وہ اقلیتوں، ہندوؤں کی نچلی ذات دلت، قبائلیوں اور کمزور طبقات کے حقوق کے لیے سرگرم ہے۔اس وقت کم از کم 18 ریاستوں میں پی ایف آئی سرگرم ہے۔ بھارت میں مجموعی طور 28 ریاستیں ہیں جب کہ مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام بھی آٹھ علاقے موجود ہیں۔
کیرالہ اور کرناٹک میں اس کے عوامی جلسوں میں بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرتے رہے ہیں۔ پی ایف آئی کے مطابق اس کے فنڈز کا استعمال مسلمانوں، دلت اور قبائلی افراد کے لیے فلاحی کاموں پر خرچ کیے جاتے ہی۔ اس تنظیم کے ماتحت تعلیمی ادارے اور اسپتال قائم ہیں۔
جب مرکزی حکومت کی جانب سے 2019 میں شہریت کے قانون میں ترمیم کے بعد مختلف علاقوں میں احتجاج ہوا، تو پی ایف آئی نے بھی اس میں بھر پور حصہ لیا۔
بی جے پی کے رہنماؤں اور حکومت کے بعض وزرا کی جانب سے اس پر سی اے اے مخالف تحریک کی فنڈنگ کا الزام لگایا گیا تھا۔ جب کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی کے مطالبات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
بعض مبصرین کہتے ہیں کہ پی ایف آئی دائیں بازو کی احیا پسند ہندو تنظیم ’راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ ‘(آر ایس ایس) کے طرز پر مسلمانوں کے درمیان متحرک تنظیم ہے۔کچھ مبصرین پی ایف آئی کو ’مسلمانوں کی آر ایس ایس‘ قرار دیتے ہیں۔
پابندی کے بعد کیا ہوگا؟
پی ایف آئی کے کیرالہ یونٹ کے جنرل سکریٹری عبد الستار نے اپنے فیس بک پوسٹ میں کہا ہے کہ قانون کی پاس داری کرنے والے شہریوں کے طور پر تنظیم نے حکومت کی جانب سے غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کو قبول کیا اور پانچ سال تک پابندی عائد ہونے کے بعد تنظیم کو تحلیل کر دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق اس فیس بک پوسٹ کے بعد پولیس نے کرناٹک میں انہیں گرفتار کر لیا ہے۔ 22 ستمبر کے چھاپوں اور گرفتاریوں کے خلاف 23 ستمبر کو ہڑتال کی کال دینے کے بعد سے وہ مفرور تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق تنظیم پر پابندی عائد ہونے کے بعد اس تنظیم کی فنڈنگ، کارکنوں کی بھرتی اور دیگر سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔ پی ایف آئی کے کارکنوں پر احتجاجی مظاہروں، سمینار اور کانفرنسز کے انعقاد کے علاوہ نشر و اشاعت کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے منسلک افراد کے خلاف ملک کے کسی بھی حصے میں دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا جا سکے گا۔
پی ایف آئی کے کارکنوں کے خلاف مختلف ریاستوں میں یو اے پی اے اور انسداد دہشت گردی کی دیگر دفعات کے تحت 1300 سے زائد کیس درج کیے گئے ہیں۔
پابندی کا خیرمقدم
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور وشو ہندو پریشد نے پی ایف آئی پر پابندی کا خیرمقدم کیا ہے۔ یوپی اور دیگر ریاستوں کے بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعلیٰ اور دیگر رہنماؤں نے بھی پابندی کا خیرمقدم کیا ہے۔
بعض مسلم حلقوں بالخصوص بریلوی مکتب فکر کے علما اور صوفی رہنماؤں کی جانب سے بھی پی ایف آئی پر پابندی کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔
آل انڈیا صوفی سجادہ نشین کونسل کے بانی چیئرمین اور اجمیر درگاہ کے سجادہ نشین کے جانشین نصیر الدین چشتی نے کہا کہ اگر یہ پابندی قانون کے مطابق اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے لگائی گئی ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں اور سبھی کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک کسی بھی ادارے یا نظریے سے بڑا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص ملک کو توڑنے کی بات کرتا ہے تو اسے اس ملک میں رہنے کا حق نہیں ہے۔ ان کے مطابق صوفی سجادہ نشین کونسل نے ہمیشہ ملکی اتحاد، آزادی، خود مختاری اور امن و امان کی حمایت کی ہے اور آئندہ بھی اس کے لیے آواز اٹھاتی رہے گی۔
ان کے مطابق یہ قدم ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث رہنے والوں کے لیے عبرت ہے۔ یہ پابندی ملک کے مفاد میں ضروری تھی۔
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اس پابندی کو مثبت انداز میں دیکھیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ پابندی ایک تنظیم پر عائد کی گئی ہے کسی مذہب پر نہیں۔
اجمیر درگاہ کے سجادہ نشین سید زین العابدین نے پابندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک محفوظ ہے تو ہم بھی محفوظ ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے دو سال قبل ہی حکومت سے یہ پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔
بریلوی مکتب فکر کے علما کی ایک تنظیم ’آل انڈیا مسلم جماعت‘ نے بھی اس پابندی کا خیرمقدم کیا ہے۔ تنظیم کے صدر مولانا شہاب الدین رضوی بریلوی نے ایک ویڈیو بیان میں اس اقدام کو انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے ضروری قرار دیا۔ یاد رہے کہ بریلوی علما بہت پہلے پہ سے پی ایف آئی پر پابندی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
پابندی پر تنقید
جماعت اسلامی ہند نے پی ایف آئی پر پابندی کو جمہوریت اور آئینی اقدار کے منافی قرار دیا ہے۔ جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پابندی لگانا مسئلے کا حل نہیں ہے اس لیے جماعت اسلامی ہند اس پابندی کی مذمت کرتی ہے۔
بیان کے مطابق اگر کوئی شخص جرم کرتا ہے اور حکومت کے پاس اس کے خلاف وافر ثبوت ہے تو کارروائی کے لیے ملکی قانون موجو دہے اور ا س کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔
جماعت اسلامی ہند کا کہنا ہے کہ کہ پی ایف آئی پر پابندی لگانے کا قدم جانب دارانہ اور تعصب پر مبنی محسوس ہوتا ہے۔ کچھ دنوں سے متعدد تنظیمیں اور افراد کھلے عام نفرت پھیلا رہے ہیں اور لوگوں کو تشدد پر اکسا رہے ہیں۔ تشدد کے واقعات ہو بھی رہے ہیں لیکن حکومت ان تنظیموں اور افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر تی ہے۔
کانگریس کے سینئر رہنما کمل ناتھ نے پابندی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر پی ایف آئی کے دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا ثبوت تھا تو اب تک پابندی کیوں نہیں لگائی گئی تھی۔
کرناٹک کے سابق کانگریس وزیر اعلیٰ سدھا رمیا نے بھی پابندی پر سوال اٹھایا ہے۔
آر ایس ایس پر پابندی کا مطالبہ
ریاست کیرالہ میں برسرِ اقتدار کانگریس اور انڈین یونین مسلم لیگ نے پابندی کا خیرمقدم تو کیا لیکن انھوں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پر بھی پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔
سینئر کانگریس رہنما اور ریاستی وزیر داخلہ رمیش چنیتھلا نے کہا کہ کیرالہ میں اکثریت پرستی اور اقلیت پرستی دونوں کی مخالفت ہونی چاہیے۔ پی ایف آئی اور آر ایس ایس دونوں سماج میں نفرت پھیلا رہے ہیں۔
راشٹریہ جنتا دل کے صدر لالو پرساد یادو نے کہا کہ جتنی بھی تنظیمیں نفرت پھیلا رہی ہیں ان سب پر پابندی لگنی چاہیے اور ان میں آر ایس ایس بھی شامل ہے۔
ان کے بقول مذہبی منافرت پھیلانے کے اعتبار سے آر ایس ایس سب سے بدتر تنظیم ہے۔
SEE ALSO: مسلمانوں کی تنظیم 'پاپولر فرنٹ آف انڈیا' پر دہشت گردی کے الزامات کیوں لگ رہے ہیں؟خیال رہے کہ ماضی میں تین بار آر ایس ایس پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ پہلی مرتبہ دائیں بازوں کی اس ہندو قوم پرست تنظیم پر اس وقت کے وزیرِ داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے 1948 میں پابندی لگائی تھی۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ انہوں نے ہمیشہ پی ایف آئی کے نظریے کی مخالفت کی ہے۔ تاہم انہوں نے پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگوں کے غلط کاموں کا یہ مطلب نہیں کے پوری تنظیم پر ہی پابندی عائد کر دی جائے۔
اسی کے ساتھ انہوں نے یو اے پی اے جیسے قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ کوئی بھی مسلمان جو اپنی بات کہنا چاہتا ہے اس قانون کے تحت اس پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ اب ہر مسلم نوجوان کو پی ایف آئی پمفلٹ کے ساتھ یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا جائے گا۔
پی ایف آئی کی سیاسی شاخ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) نے پابندی کی مخالفت کی ہے اور اسے جمہوریت اور عوم کے حقوق پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔
ایس ڈی پی آئی کے قومی صدر ایم کے فیضی نے ایک بیان میں کہا کہ پانچ سال تک کی پابندی ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی کا حصہ ہے۔
ان کے مطابق جس نے بھی بی جے پی حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھائی اسے گرفتاری اور چھاپوں کے خطرے کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت کی جانب سے آئین کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اظہار کی آزادی اور احتجاج کے حق کو بے دردی سے کچلا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق حکومت اختلافی آوازوں کو دبانے اور لوگوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے تحقیقاتی ایجنسیوں کا غلط استعمال کر رہی ہے۔