|
صدر آصف زرداری نے وزیرِ اعظم کی تجویز پر فنانس بل 2024 کی منظوری دے دی ہے- فنانس بل یکم جولائی سے لاگو ہو گیا ہے-
قومی اسمبلی سے منظور بجٹ میں مبصرین کے مطابق تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ سرکاری ملازمین میں گریڈ ایک سے 16 تک کے وفاقی اداروں میں کام کرنے والوں کی تنخواہوں میں 25 فی صد اور گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فی صد تک اضافہ کیا گیا۔
ملازمین کا دعویٰ ہے کے تنخواہیں جتنی بڑھائی گئی ہیں اس سے زیادہ تو ٹیکس لگایا گیا ہے۔ اس لیے حقیقت میں تنخواہیں بڑھی نہیں بلکہ کم ہو گئی ہیں ۔
دوسری جانب ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر بھاری ٹیکسز نافذ کیے گئے ہیں۔
جس دن قومی اسمبلی سے بجٹ کی منظوری کی جا رہی تھی اسی دن پارلیمان میں موجود عوامی نمائندوں کی مراعات میں اضافے کی بھی منظوری دی گئی۔
سابق وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دو پاکستان ہیں، ایک پاکستان ٹیکس دینے والوں کا اور دوسرا پاکستان مراعت یافتہ طبقے کے لیے ہے ۔
مفتاح اسماعیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تنخواہ دار طبقے پر بڑھنے والے بوجھ کا ذمہ دار آئی ایم ایف نہیں یہ حکومت ہے ۔
ان کے بقول پانچ لاکھ تنخواہ لینے والوں سے سوا لاکھ روپے ٹیکس کے مد میں لیے جا رہے ہیں۔
مفتاح اسماعیل کا مزید کہنا تھا کہ جہاں پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے، وہاں بجٹ میں 75 ارب روپے ارکان قومی اسمبلی اور 400 ارب روپے صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے لیے رکھے گئے ہیں۔ یہ زیادتی نہیں تو اور کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپنے جاری اخراجات میں 24 فی صد اضافہ کیا ہے۔ نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ گھر خریدنے پر بھاری ٹیکس ادا کریں گے۔ مگر سرکاری ملازمین کو اس ٹیکس سے چھوٹ دے دی گئی ہے ۔
SEE ALSO: قومی اسمبلی سے بجٹ منظور؛ 'قرض ملنے کے امکانات روشن مگر مہنگائی بھی بڑھے گی'سابق وزیر خزانہ کے مطابق جس طرح کا بجٹ منظور ہوا ہے اس سے لگتا ہے کے پاکستان کو آئی ایم ایف کا پروگرام مل جائے گا۔
صدر آصف زرداری نے اتوار کو فنانس بل پر دستخط کرکے اس کی منظوری دی۔ اس منظوری سے قبل وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھ رہا ہے ۔ پینشن اسکیم پر یکم جولائی سے اطلاق ہوگا۔ لیکن آرمڈ فورسز کو ایک سال کے لیے اس اسکیم پر عمل در آمد سے چھوٹ دی گئی ہے کیوں کہ فوج نے ادارے کے ڈھانچے کو دیکھنا ہے۔
وزیرِ خزانہ کے مطابق پینشن اسکیم بجٹ کا حصہ نہیں تھی۔ اس کے بارے میں ای سی سی نے فیصلہ کیا۔
پینشن کا نیا نظام ہے کیا؟
اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) سے منظور کی گئی پینشن اسکیم کے حوالے سے سینئر صحافی شعیب نظامی کا کہنا تھا کہ اس کی کابینہ سے منظوری ابھی باقی ہے ۔
شعیب نظامی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کے پینشن نظام میں تبدیلی کے لیے 15 ترامیم تجویز کی جا رہی ہیں جن کا اطلاق یکم جولائی سے ریٹائر ہونے والے ملازمین پر ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پینشن کی نئی اسکیم کے تحت سرکاری ملازم کو ریٹائرمنٹ سے دو سال پہلے تنخواہ کے 70 فی صد کے برابر گراس پنشن ملے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 25 سال تک سرکاری نوکری کے بعد رضاکارانہ طور پر ریٹائرمنٹ لی جا سکے گی۔ رضاکارانہ طور پر ریٹائرمنٹ لینے والوں کو 60 سال کی عمر تک کم از کم تین فی صد اور زیادہ سے زیادہ 20 فی صد سالانہ پینشن سے کٹوتی ہو گی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پینشنر کو پینشن میں سالانہ اضافہ ریٹائرمنٹ کےوقت ملنے والی پینشن کی بنیاد پر ہی ملے گا اور پنشن میں سالانہ اضافہ علیحدہ رقم کے طور پر شمار ہوگا۔
ان کے بقول "پے اینڈ پینشن کمیشن" ہر تین سال بعد بیس لائن پینشن کا جائزہ لے گا۔
اسکیم کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ پینشنر کی وفات کے 10 سال بعد تک ان کے اہلِ خانہ (بیواہ یا غیر شادی شدہ بیٹی) کو پینشن مل سکے گی۔ اسی طرح سرکاری ملازم کی موت کی صورت میں اس کے اہلِ خانہ کو 25 برس تک پینشن ملے گی۔ پینشنرز کے بچوں کے جسمانی یا ذہنی طور پر معذور ہونے کی صورت میں عمر بھر پینشن مل سکے گی۔
SEE ALSO: کیا اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کا مطلب معاشی استحکام اور اقتصادی ترقی ہے؟دو پینشن والوں کے لیے نیا ضابطہ
صحافی شعیب نظامی کا کہنا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ سرکاری نوکری کرنے والوں کو یا تو نئی نوکری کی تنخواہ ملے گی یا وہ پرانی نوکری کی پینشن وصول کر سکیں گے۔
ان کے بقول سرکاری ملازمین ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ سرکاری نوکری کرنے پر صرف ایک محکمے سے پینشن لے سکیں گے۔ میاں اور بیوی دونوں اگر سرکاری ملازم ہوں گے تو ریٹائرمنٹ کے بعد دونوں کو پینشن ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پینشن میں سالانہ اضافہ دو سال کی اوسط مہنگائی کے 80 فی صد کے برابر ہو گا۔ مہنگائی میں اضافہ اسٹیٹ بینک کے جاری اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ 28 جون کو وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نےقومی اسمبلی میں پیش کیے گئے فناس بل میں 32 پیجز پر مشتمل ترامیم پیش کی تھیں جس کو ارکان نے کثرت رائے سے منظور کیا تھا ۔
ان ترامیم میں پیٹرول اور ڈیزل پر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) فی لیٹر 70 روپے کرنے کی منظوری دی گئی۔ اب فی لیٹر پیٹرول اور ڈیزل پر حکومت 70 روپے صرف پی ڈی ایل کی مد میں لے سکتی ہے۔
جہازوں کے ٹکٹ مہنگے
اسی طرح بجٹ میں غیر ملکی سفر کرنے والوں پر بھی بھاری ٹیکس عائد کرنے کی منظوری دی گئی۔
یکم جولائی سے امریکہ اور کینیڈا بزنس کلاس اور کلب کلاس کا ٹکٹ پر ایکسائز ڈیوٹی ایک لاکھ روپے تک بڑھا دی گئی۔
امریکہ، شمالی امریکہ، لاطینی امریکہ اور کینیڈا کے لیے جہاز کے بزنس اور کلب کلاس ٹکٹ پر ایکسائز ڈیوٹی دو لاکھ 50 ہزار سے بڑھا تین لاکھ 50 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔
یورپ کے لیے یکم جولائی سے بزنس کلاس اور کلب کلاس کے ٹکٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں 60 ہزار روپے کا اضافہ کیا ہے۔
یورپ کے لیے بزنس اور کلب کلاس ٹکٹ پر ایکسائز ڈیوٹی ایک لاکھ 50 ہزار روہے سے بڑھا کر دو لاکھ 10 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔
SEE ALSO: آئندہ بجٹ میں ٹیکس بڑھانے کا ہدف؛ معاشی تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے لیے یکم جولائی سے بزنس کلاس اور کلب کلاس کے ٹکٹ پر ایکسائز ڈیوٹی 60 ہزار روپے بڑھا کر دو لاکھ 10 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔
چین، ملائیشیا اور انڈونیشیا سمیت فار ایسٹ ممالک کے لیے بزنس اور کلب کلاس ٹکٹ پر ایکسائز ڈیوٹی دو لاکھ 10 ہزار روپے کر دی گئی۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت مشرقِ وسطیٰ اور افریقی ممالک کے لیے بزنس اور کلب کلاس ٹکٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں 30 ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا۔ اب ان ممالک کے ٹکٹ پر ایک لاکھ پانچ ہزار روپے ایکسائز ڈیوٹی عائد کی گئی ہے ۔
ارکانِ پارلیمان کی تنخواہوں میں اضافہ
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ارکانِ پارلیمان نے مراعات بڑھانے سے متعلق ترمیم 28 جون کو ایوان میں پیش کیں جو اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود منظور کی گئیں۔
ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہ و مراعات ایکٹ میں ترمیم فنانس بل کے ذریعے کی گئی۔
پیپلز پارٹی کے عبد القادر پٹیل کی جانب سے پیش کی گئی ترمیم کے تحت اراکین اسمبلی کا سفری الاؤنس 10روپے کلومیٹر سے بڑھا کر 25روپے کر دیا گیا ہے۔
اراکینِ پارلیمنٹ کے بچ جانے والے سالانہ فضائی ٹکٹس استعمال نہ ہونے پر منسوخ کرنے کے بجائے اگلے سال قابلِ استعمال ہوں گے۔
اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کا اختیار وفاقی حکومت سے لے کر متعلقہ ایوان کی فنانس کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس میں اضافہ
بجٹ میں پراپرٹی کے اوپر پہلی بار فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی گئی ہے ۔
بلڈرز اور ڈویلپرز کی کسی بھی لانچ کردہ پروڈکٹ پر تین فی صد ایف ای ڈی عائد ہوگی۔
SEE ALSO: ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ؛’50 فی صد رقم بھی مشکل سے خرچ ہو گی‘کمرشل پلاٹ فروخت کرنے پر تین فی صد ایف اے ڈی عائد ہوگی جب کہ فروخت کرنے والا اگر فائلر ہوا تو تین فی صد ایف اے ڈی دے گا۔
فروخت کرنے والا اگر لیٹ فائلر ہوا تو پانچ فی صد ایف اے ڈی دے گا۔
فروخت کرنے والا اگر نان فائلر ہوا تو سات فی صد ایف اے ڈی ادا کرنے کا پابند ہوگا۔
’وفاقی وزرا اپنے بل بھی خود ادا کر رہے ہیں‘
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ کے نفاذ سے ایک دن قبل اتوار کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی اقدامات سے معیشت میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ ملک میں معاشی استحکام آ رہا ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر نو ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی شرح 38 فی صد سے کم ہو کر 12 فی صد پر آ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمان میں بھی کہا تھا کہ نان فائلر کی اصطلاح سمجھ نہیں آ رہی۔ نان فائلرز کی اصطلاح سے ملک کو باہر نکالیں گے۔ اپنے اقدامات سے نان فائلر کی اصطلاح ہی ختم کر دیں گے۔
ان کے بقول ایف بی آر کی "ڈیجیٹلائزیشن" ہونے جا رہی ہے۔ معاشی استحکام سے بیرونی اداروں کا اعتماد بحال ہو چکا ہے۔ ایف بی آر میں جتنا انسانی عمل کم ہوگا کرپشن کم ہوگی۔
ان کے بقول ریٹیلرز پر ٹیکس 2022 میں لگ جانا چاہیے تھا۔ یکم جولائی سے ریٹیلرز پر ٹیکس لگ جائے گا۔ 42 ہزار ریٹیلرز کی رجسٹریشن ہو چکی ہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ وفاقی وزرا تنخواہ نہیں لے رہے اور اپنے یوٹیلیٹی بل بھی وہ خود ادا کر رہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے اعتراف کیا کہ پینشن بجٹ کا حصہ نہیں تھا۔ لیکن ای سی سی میں اس پر فیصلہ ہوا ۔ نئی پینشن اسکیم کا اطلاق یکم جولائی سے ہو گا۔ آرمڈ فورسز کو ایک سال کے لیے اس لیے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ معاشی صورتِ حال بہتر ہوتے ہی تنخواہ دار طبقے کو سب سے پہلے ریلیف دیا جائے گا۔
ان کا دعویٰ تھا کہ سی پیک ٹو کے تحت پاکستان کی برآمدات بڑھیں گی۔
آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہونے کا دعویٰ
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کہہ چکے ہیں یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا۔
ان کے بقول آئی ایم ایف کے بارے میں بہت باتیں ہوئی ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر ہم آگے نہیں چل سکتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام پر ہماری مثبت پیش رفت ہو رہی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کو آگے لے کر جانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ کرنے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ آئی ایم ایف کی مشاورت سے تیار ہوا۔