|
نئی دہلی — بھارت میں یکم جولائی سے تین نئے تعزیری قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں جو برطانوی دور سے نافذ العمل انڈین پینل کوڈ، کوڈ آف کریمینل پروسیجر اور انڈین ایویڈنس ایکٹ کی جگہ لیں گے۔ ان نئے تعزیری قوانین میں بھارتیہ نیائے سنکھتا، بھارتیہ ناگرک سورکشا سنکھتا اور بھارتیہ ساکشیہ ادھینیم شامل ہیں۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے رواں سال جنوری میں کہا تھا کہ ان تین قوانین کی مدد سے فلسفہ قانون اور نظام قانون میں ایک بڑی تبدیلی آئے گی۔
ان کے مطابق یہ قوانین سٹیزن فرسٹ، آنر فرسٹ اور جسٹس فرسٹ کے جذبے کے تحت وضع کیے گئے ہیں اور اب پولیس ڈیٹا کے ساتھ کام کرے گی نہ کہ ڈنڈے کے ساتھ۔
گزشتہ سال 25 دسمبر کو ان قوانین کا نوٹی فکیشن جاری ہونے کے بعد وزارتِ داخلہ نے ان کے مؤثر نفاذ اور پولیس، جیل، استغاثہ، عدلیہ، فرانزک عملے اور عوام سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز میں بیداری لانے کے لیے متعدد تربیتی پروگراموں کا آغاز کیا ہے۔
بھارت اور پاکستان میں برطانوی دور میں وضع کیے گئے متعدد تعزیری قوانین نافذ ہیں تاہم بھارت میں اب وہ قوانین تاریخ کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔
حکومت کا استدلال ہے کہ نئے قوانین کے تحت ایک جدید نظام انصاف نافذ ہوگا جس کے تحت زیرو ایف آئی آر درج کرانے کی سہولت ہوگی۔
پولیس میں شکایت کا اندراج ہوگا اور ایس ایم ایس کے ذریعے بھی سمن کی ترسیل ہوگی اور تمام سنگین جرائم کے موقع واردات کی ویڈیو گرافی ضروری ہوگی۔
ان قوانین پر ماہرین کا کہنا ہے کہ تعزیرات ہند میں مجموعی طور پر 511 دفعات تھیں جو اب کم ہو کر 358 رہ گئی ہیں جو دفعات ایک دوسرے کے مماثل تھیں، ان کو آپس میں ضم کر دیا گیا ہے۔
اب کوئی بھی شخص پولیس تھانے میں زیرو ایف آئی آر درج کرا سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس کے علاقے میں جرم سر زد ہوا ہو۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے قانونی کارروائی میں ہونے والی تاخیر ختم ہوگی اور معاملہ فوری طور پر درج کیا جا سکے گا۔
نئے قوانین کے تحت مجرمانہ مقدمات میں فیصلہ مقدمہ مکمل ہونے کے 45 دنوں کے اندر آئے گا۔ پہلی سماعت کے 60 دنوں کے اندر الزامات طے کیے جائیں گے۔ جنسی زیادتی کی شکار خاتون کا بیان کوئی خاتون پولیس اہل کار اس کے کسی رشتے دار کی موجودگی میں درج کرے گی۔
نئے قوانین میں منظم جرائم اور دہشت گردی کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ تمام قسم کی تلاشی اور ضبطی کی کارروائی کی ویڈیو گرافی لازمی قرار دی گئی ہے۔
خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کے سلسلے میں نئے ضوابط بنائے گئے ہیں۔ بچوں کی خرید و فروخت سنگین جرم سمجھا جائے گا۔ نابالغ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے مجرموں کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔
نئے قوانین میں خواتین اور بچوں کے ساتھ جرائم کے معاملات کو ترجیح دی گئی ہے۔ ایسے معاملات میں مقدمہ درج کیے جانے کے دو ماہ کے اندر تحقیقات مکمل کر لی جائے گی۔ متاثرین کو 90 دنوں کے اندر اپنے معاملے کی پیش رفت کے سلسلے میں مستقل بنیادوں پر معلومات پانے کا حق ہوگا۔
نئے قوانین کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ گرفتاری کی صورت میں شخص کو اپنی پسند کے کسی فرد کو اپنی صورت حال کے بارے میں مطلع کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ حکومت کے مطابق اس سے گرفتار شدہ شخص کو فوری تعاون مل سکے گا۔
نئے قوانین کے نفاذ سے دو روز قبل سپریم کورٹ میں ان کے نفاذ کے خلاف اپیل دائر کی گئی ہے اور ان کے نفاذ پر حکم التوا جاری کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
عذرداری میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ان قوانین کا گہرائی سے مطالعہ کرے۔ اس کے بعد ہی انھیں نافذ کیا جائے۔
انجلی پٹیل اور چھایا مشرا نے اپنی عذرداری میں عدالت سے اپیل کی ہے کہ وہ کمیٹی بنانے کا حکم جاری کرے۔
ان کا استدلال ہے کہ نئے قوانین کے عنوانات غلط ہیں اور ان میں تضادات اور ابہام موجود ہیں۔
متعدد وکلا کا استدال ہے کہ ان قوانین میں پولیس کو بے پناہ اختیارات دے دیے گئے ہیں اور ضمانت کا حصول مشکل کر دیا گیا ہے۔ ان کے تحت پولیس کو یک مشت یا مرحلہ وار 15 دنوں کی ریمانڈ حاصل کرنے کا حق دے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ضمانت ملنے کے امکانات محدود ہو گئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل عبد الرحمن ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ان قوانین میں بے شمار خامیاں ہیں۔ ہمارے ملک کے قوانین میں سب سے اچھا قانون ’قانونِ شہادت‘ ہے۔ اس میں ضرورت کے مطابق کچھ ترامیم کی گئی ہیں۔ اب اس میں بھی کافی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو ضابطہ فوجداری کے تحت حاصل اختیارات لامحدود کر دیے گئے ہیں اور اب پولیس کسی بھی شخص کو کہیں سے بھی وجہ بتائے بغیر گرفتار کر سکتی ہے۔
ان کے مطابق اب کسی بھی شخص کو عدالت سے ضمانت حاصل کرنا بہت مشکل ہوگا اور قانونی گرفتاری کے سلسلے میں عدالت کچھ نہیں کر سکے گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ قانونِ شہادت میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملزم کے خلاف الزامات تمام تر شک و شبہے سے پاک ہو کر جب ثابت ہو جائیں تب اسے مجرم قرار دے کر سزا دی جا سکتی ہے۔ لیکن اب تمام تر شکوک و شبہات سے پاک ہونا ضروری نہیں رہا۔ اب سطحی قسم کی شہادت کی بنیاد پر بھی سزا دی جا سکے گی۔
ان کے بقول ان قوانین کے تحت بھارت کو ’پولیس اسٹیٹ‘ بنا دیا گیا ہے۔ ان کا یہاں تک کہنا ہے کہ نئے قوانین میں بعض دفعات غیر آئینی بھی ہیں۔ آئین میں جو بنیادی حقوق دیے گئے ہیں دستور کی دفعہ 32 میں ان کی حفاظت کی گارنٹی دی گئی ہے۔ لیکن خصوصاً ضابطہ فوجداری میں جو ترمیمات کی گئی ہیں وہ قطعی غیر آئینی ہیں۔
عبد الرحمن ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ ان نئے قوانین کے نفاذ سے عدالتوں پر بہت بار پڑے گا۔ تمام ججز اور وکلا کو یہ قوانین پڑھنے اور یاد کرنے پڑیں گے۔ ان کے بقول 15-20 دنوں سے پولیس کو ضابطے کی ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ ججز کو بھی تربیت دی جا رہی ہے اور وکلا اس کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
ان کے بقول جو دفعات آئین سے ٹکراتی ہیں ان کو منسوخ کر دینا عدالت کی ذمہ داری ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ اس معاملے میں جو عذرداری داخل کی گئی ہے اس پر کسی کارروائی کا امکان نہیں ہے۔
ان نئے قوانین کے خلاف بنگلور اور کلکتہ سمیت کئی عدالتوں کی بار کونسلز نے احتجاج کیا ہے۔ بنگلور میں ’آل انڈیا لائرز ایسو سی ایشن فار جسٹس‘ (اے آئی ایل اے جے) نے جمعے کو احتجاج کیا جب کہ مغربی بنگال کی بار کونسل نے ان قوانین کے نفاذ کے خلاف یکم جولائی کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔
احتجاجی وکلا کا کہنا ہے کہ ان قوانین کے متعدد پروویژنز فطری انصاف اور بنیادی حقوق کے اصولوں کے منافی ہیں۔ ان کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان قوانین کا غلط استعمال ہوگا۔
دریں اثنا کلکتہ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ وکلا کو اپنا کام روکنے اور احتجاج میں شامل ہونے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس شمپا سرکار نے کہا ہے کہ یکم جولائی کو منائے جانے والے یوم سیاہ کے سلسلے میں بار کونسل نے جو اپیل جاری کی ہے اسے اختیاری سمجھا جانا چاہیے نہ کہ لازمی۔
ادھر بار کونسل آف انڈیا نے تمام ریاستوں کی بار کونسلز سے کہا ہے کہ وہ نئے قوانین کے نفاذ کے خلاف احتجاج سے دور رہیں۔کونسل کے چیئرمین منن کمار مشرا نے ایک بیان جاری کرکے احتجاج میں شامل نہ ہونے کی اپیل کی ہے۔