پاکستان کے صوبے پنجاب میں عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان اور انتخابی شیڈول کے اجرا کے باوجود وفاقی حکومت پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے متعلق اعلیٰ عدالت کا فیصلہ نہ ماننے پر قائم ہے۔
وفاقی حکومت پنجاب اسمبلی میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو متنازع قرار دے رہی ہے اور اس کے خلاف پارلیمنٹ سے ایک قرارداد منظور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے حکومت کی آئندہ کی حکمتِ عملی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کابینہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ اب کابینہ کے فیصلے کو پارلیمنٹ میں ایک قرارداد کی صورت میں پیش کیا جائے گا۔
رانا ثناء اللہ نے' جیو ٹی وی' کے پروگرام 'آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ 'میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر وزارتِ قانون نے جو رائے دی ہے اس سے کابینہ متفق ہے اور اتحادی جماعتوں کے سربراہان نے بھی اس رائے سے اتفاق کر لیا ہے۔
البتہ انہوں نے وزارتِ قانون کی پیش کردہ رائے کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
ان کے بقول پنجاب میں انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم پر کابینہ ایک فیصلہ کر چکی ہے جسے پارلیمنٹ میں رکھا جائے گا۔ البتہ کابینہ نے اپنے حتمی فیصلے کو پارلیمنٹ کی رہنمائی سے مشروط کیا ہے۔ اگر پارلیمنٹ کوئی اور رائے دیتی ہے تو کابینہ اس کی پابندی کرے گی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے چار اپریل کو پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کے التوا کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔
اعلیٰ عدالت نے انتخابی شیڈول بھی دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کو 10 اپریل تک 21 ارب روپے فراہم کرے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے۔
ادھر تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما فواد چوہدری کہتے ہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کرنے والے کابینہ ارکان کے نام مانگ لیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کابینہ اجلاس میں شرکت کرنے والے وزرا نے اعلامیے سے لاتعلقی اختیار نہ کی تو انہیں ڈی سیٹ کرنے کے لیے آرٹیکل 63 اے کے تحت الیکشن کمیشن میں ریفرنس بھجوا ئیں گے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننے سے توہینِ عدالت کی کارروائی کا خدشہ
سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کر کے کیا حکومت توہینِ عدالت کی کارروائی کے لیے تیار ہے؟ اس سوال پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ حکومت تین ججز کے اقلیتی فیصلے کو فیصلہ ہی نہیں مانتی تو توہینِ عدالت کیسی۔
ان کے بقول الیکشن التوا کے از خود نوٹس پر چار ججز کا فیصلہ موجود ہے جو قرار دے چکے ہیں کہ از خود نوٹس کو خارج تصور کیا جائے۔ اس صورت میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اقلیتی ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ اگر تین ججز توہینِ عدالت کے الزام میں پوری پارلیمنٹ کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں یا گھر بھیج سکتے ہیں تو یہ عمل بھی ایک مرتبہ ہوجانا چاہیے تاکہ روز روز کا معاملہ ختم ہو۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ کو اعلیٰ عدالت کے سامنے لاکھڑا کرنا نظام کے لیے خطرناک ہو گا۔
واضح رہے کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرائے جائیں۔ صرف دو صوبوں میں انتخابات کرانا دیگر صوبوں کے ساتھ زیادتی ہو گی۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے شیڈول جاری کر دیا ہے۔ جس کے مطابق انتخابات 14 مئی کو ہوں گے۔