زندہ بچ جانے والوں کے حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ تباہی کوسٹ گارڈکی غلطی سے ہوئی تھی۔
|
یونان کی ایک عدالت نے منگل کے روز نو مصری شہریوں کے خلاف الزامات مسترد کر دیے جن پر گزشتہ سال یونان کے ساحل کے قریب اس ماہی گیری کی کشتی کے حادثے کا الزام تھا جس میں سینکڑوں تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہوگئے تھے،ہلاک ہونے والوں میں 300 سے زیادہ پاکستانی بھی شامل تھے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ معاملہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے کیونکہ یہ حادثہ بین الاقوامی پانیوں میں ہوا تھا۔
لیبیا سے سفر کا آغاز کرنے والے فشنگ ٹرالر ’ایڈریانا‘ میں 700 پاکستانی، شامی اور مصری تارکین وطن سوار تھے جو اٹلی کے لیےروانہ ہوئے تھے۔
تاہم اس سے قبل یہ ٹرالر 14 جون 2023 کو جنوب مغربی یونان کے قریب الٹ گیا۔ صرف 104 افراد زندہ بچ گئے اور 82 لاشیں نکالی گئی تھیں۔
یہ بحیرہ روم میں اب تک کے سب سے مہلک کشتیوں کے حادثات میں سے ایک تھا اور اس نے یورپی یونین کے ممالک کی طرف سے اپنے ساحلوں کی طرف جانے والے تارکین وطن کے بہاؤ کو روکنے کے لیے استعمال کیے جانے والے طریقوں کے بارے میں سوالات اٹھائے تھے۔
مقدمہ کیاتھا؟
مقدمے کا سامنا کرنے والے نو ملزمان پر، تارکین وطن کی اسمگلنگ، جہاز کو تباہ کرنے اور ایک جرائم پیشہ تنظیم کاحصہ بننے کا الزام عائد کیا گیا۔
ان سب نے کوئی غلط کام کرنے سے انکار کیا تھا۔ ان کے وکلاء کا کہنا تھا کہ وہ محض ان تارکین وطن کی مدد کر رہے تھے جو اٹلی میں بہتر زندگی کی تلاش میں جارہے تھے اور یونانی حکام نے انہیں قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
زندہ بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈ کی جانب سے کشتی کو باندھ کر کھینچنے کی ایک تباہ کن کوشش کی وجہ سے وہ بحیرہ روم کے گہرے ترین پانیوں میں الٹ گئی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوسٹ گارڈ نےکوئی امدادی کارروائی شروع کرنے سے پہلے کئی گھنٹوں تک کشتی کی نگرانی کی۔۔
انسانی حقوق کے گروپوں اور مدعا علیہان کے دفاع کے وکلاء نے یونان کی جانب سے تحقیقات کی شفافیت پر سوالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ اس حادثے میں یونانی کوسٹ گارڈ کے کردار کی چھان بین کے لیے خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا ہے۔
کوسٹ گارڈ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایڈریانا پر سوار افراد نے مدد قبول نہیں کی اور کوسٹ گارڈ کا ڈوبنے میں کوئی کردار نہیں تھا۔
ان نو ملزمان نے11 ماہ حراست میں گزارے تھے، تاہم مقدمے کی سماعت شروع ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر پریذائیڈنگ جج Eftichia Kontaratou نے مقدمہ خارج کر دیا۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کوئی اور عدالت اس کیس کی سماعت کرے گی۔
ٹرالر پر سوار پاکستانی تارکین وطن
اس ٹرالر پر تقریباً ساڑھے تین سو پاکستانی سوار تھے،بہت سے لاپتہ ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ ہلاک ہو گئے ہوں۔
اس وقت کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے قومی اسمبلی میں قانون سازوں کو بتایا کہ 14 جون کو کشتی ڈوبنے کے وقت ایک اندازے کے مطابق 700 تارکین وطن اس پرسوار تھے۔ 12 پاکستانیوں سمیت صرف 104 افراد کو بچا لیا گیا اور 82 لاشیں نکالی گئیں۔
پاکستان کی حکومت نے اس وقت انسانی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھاجنہوں نے ماہی گیری کی کشتی پر پاکستانیوں کے لیے سفر کا انتظام کیا، جن میں سے اکثر یورپ میں ملازمت کی تلاش میں نکلے تھے۔ پولیس نے اس کیس کے سلسلے میں کم از کم 17 مشتبہ اسمگلروں کو گرفتار کیاتھا۔
تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے سے قبل کیا ہوا تھا؟ متاثرین اور عہدیداروں کے بیانات میں تضاد
یونان کے قریب سمندری حدود میں ڈوبنے والی کشتی پر سوار 104 افراد کو یونانی کوسٹ گارڈ نے بچا لیا تھا۔حادثے میں بچ جانے والے افراد نے دعویٰ کیا تھاکہ کشتی کے ڈوبنے سے عین پہلے ایک اور جہاز اسے 'ٹو' کر رہا تھا۔
البتہ ایتھنز میں عہدے داروں کا اصرارتھا کہ تارکینِ وطن کو لیبیا سے اٹلی لے جانے والی کشتی کسی بھی مقام پریونانی کوسٹ گارڈ کے جہاز سے ’ٹو ‘ نہیں کی گئی تھی۔
یونانی کوسٹ گارڈز کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیاتھا جن پر الزام ہے کہ انہوں نے تارکینِ وطن کو ان کے جہاز کے ڈوبنے سے پہلے بچانے کی کوشش نہیں کی۔بلکہ انہوں نے کسی بھی قسم کی مدد کرنےسے انکار کیا اورکشتی کو اٹلی لےجانے پر اصرار کیا۔
کوسٹ گارڈ ز کا استدلال تھاکہ گنجائش سے کہیں زیادہ بھرے ہوئے ٹرالر سے سینکڑوں لوگوں کو نکالنے کی کوشش بہت خطرناک ہوتی۔
'تلواریں اٹھائے اسمگلر لوگوں کو جہاز کی طرف ہانک رہے تھے'
بارسلونا میں رہنے والے ایک پاکستانی شخص زوہیب شمریز نے خبرر ساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے بات کرتے ہوئے بتایا تھاکہ ان کے چچا بھی اس جہاز پر تھے،"میں نے چچاسے کشتی پر سوار ہونے سے پانچ منٹ پہلے بات کی تھی اور انہیں کشتی پر سوار نہ ہونے کا کہا لیکن انہوں ںے کہا کہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔"
شمریز نے بتایا کہ اپنی آخری گفتگو میں، ندیم محمد نےانہیں بتایا کہ تلواریں اٹھائے ہوئے اسمگلروں نےانہیں جہاز پر دوسروں کے ساتھ سوار ہونےکےلیےکہا، "انہوں نے مجھے بتایا کہ وہاں بہت سارے لوگ تھے لیکن اگر (مسافر) جہاز پر نہ چڑھے تو وہ انہیں مار ڈالیں گے۔"
انہوں نے بتایا کہ ان کے چچا شادی شدہ ہیں اور پاکستان میں ان کے تین چھوٹے بچے ہیں۔ شمریز کے مطابق ندیم محمد اپنے خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
بدقسمت ٹرالر کا ایک کرد مسافر، علی شیخی
شمال مشرقی شام کے جنگ زدہ قصبے کوبانی سے تعلق رکھنے والے کرد باشندے علی شیخی کو امید تھی کہ یہ جہاز اسے یورپ میں بہتر زندگی کی طرف لے جائے گا۔ جہاں پہنچنے کے بعد وہ اپنی بیوی اور تین جوان بیٹوں کو بھی وہاں لے جا سکے گا۔ لیکن یورپ پہنچنے کے بجائے جہاز 14 جون کی آدھی رات کے دو گھنٹے بعد بین الاقوامی پانیوں میں ڈوب گیا۔
علی شیخی نے کردش ٹی وی 'رودا' کو بتایا کہ اس نے اپنے مرجانے والے چھوٹے بھائی اور دیگر رشتہ داروں سمیت اسمگلروں کو اس سفر کے لیے فی کس چارہزار ڈالر ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
شیخی اور دوسرے زندہ بچ جانے والوں کے بیانات کے مطابق اسمگلروں نے کسی کو لائف جیکٹس لانے کی بھی اجازت نہیں دی اور مسافروں کے پاس جو بھی کھانا تھا اسے سمندر میں پھینک دیا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو جہاز کے سامان رکھنے والےنچلےحصے میں جانے کی ہدایت کی گئی تھی جو موت کا ایک ایساجال تھاجہاں خواتین اور بچوں سمیت بیٹھے ہوئےسینکڑوں افراد کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ ڈوب گئے ہیں۔ لیکن اسمگلروں کو اضافی رقم ادا کرنے کے بعد شیخی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اوپر ڈیک پر بیٹھ گئے۔
اس بدقسمت کشتی کے ڈوبنے تک وہ سمندر میں پانچ دن گزار چکے تھے۔ ڈیڑھ دن کے بعد پانی ختم ہوگیا تو کچھ مسافروں نے سمندری پانی پی کر پیاس بجھانے کی کو شش کی۔
شیخی نے کہا کہ جب ٹرالر ، انجن خراب ہونے کے بعد ڈوبنے لگا تو ایک اور جہاز نے اسے کھینچنے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ کھینچنے کی کوشش میں ٹرالر ڈوب گیا۔ "ہم نہیں جانتے کہ وہ (جہاز)کس کا تھا۔"
اسی طرح کے دعوے دوسرے زندہ بچ جانے والوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے اکاؤنٹس میں کیے ہیں۔
شیخی نے رودا ٹی وی کو بتایا کہ "ٹرالرایک طرف سےاوپر ہوگیا اور لوگ وہاں سے سمندر میں گر گئے۔اندھیرے میں لوگ چیخنے لگے۔ ہر شخص نے دوسرے کو پکڑ کر نیچے کھینچنے کی کوشش کی، اس وقت میں نے سوچا کہ کوئی زندہ نہیں بچے گا۔"
بہرحال یہ تو یقینی ہے کہ اس فیصلے سے ان لوگوں کے زخم ہرے ہوجائیں گےجن کا خیال تھا کہ مقدمے کا فیصلہ ان کے لیے ایک قسم کا ’کلوژر‘ فراہم کرے گا۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کوئی اور عدالت اس کیس کی سماعت کرے گی۔
منگل کو یونان میں جج کے فیصلے پر کچھ لوگوں نے جشن منایا۔
مدعا علیہ کے وکیلوں میں سے ایک، اسپائروس پنتازیز نے رائٹرز کو بتایا، "نو بے گناہ لوگ اب آزاد ہیں۔ آخر کار، ایک بڑی جدوجہد اور تکلیف کے بعد، انہیں انصاف مل گیا۔"
اس رپورٹ میں کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں۔