ایسے میں جب ایران میں ایک 22 سالہ خاتون کی ہلاکت پر ہونے والے مظاہروں کے مرکز مغربی ایرانی شہر کی سڑکوں پر بظاہر گولیوں اور دھماکوں کی آوازیں گونج رہی ہیں، سماجی کارکنوں کے مطابق قریبی گاؤں میں مبینہ طور پر کم از کم ایک شخص سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔
سولہ ستمبر کو تہران میں ملک کی اخلاقی پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی ہلاکت پر ایران بھر کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔
ایران کی حکومت کا اصرار ہے کہ امینی کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی گئی لیکن اس کے خاندان کا کہنا ہے کہ اس کے جسم پر زخموں اور مار پیٹ کے نشانات تھے۔
اس کے بعد سامنے آنے والی ویڈیوز میں سیکورٹی فورسز کو خواتین مظاہرین کو مارتے اور دھکے دیتے دکھایا گیا ہے۔ ان میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے ہیڈ اسکارف یا حجاب پھاڑ دئے ہیں۔
SEE ALSO: ایران میں احتجاج: 'لاپتا' ہونے والی 16 سالہ نیکا شاکرمی کی موت معمہ بن گئیحکام کی جانب سے انٹرنیٹ میں خلل ڈالنے کے باوجود تہران اور دیگر مقامات سے آن لائن ویڈیوز سامنے آئی ہیں۔ ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ کچھ خواتین سر پر اسکارف کے بغیر سڑکوں پر مارچ کر رہی ہیں جب کہ دیگر کی حکام سے جھڑپیں ہوئی اور سڑکوں پر آگ لگائی گئی۔
احتجاج کا سلسلہ چوتھے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے۔ یہ مظاہرے 2009 کے گرین موومنٹ کے مظاہروں کے بعد ایران کی مذہبی حکومت کے لیے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہیں۔
ہینگا آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس نامی کرد گروپ کے مطابق تشدد کے واقعات ایران کے صوبہ کردستان کے دارالحکومت سنندج کے ساتھ ساتھ عراق کی سرحد کے قریب سالس باباجانی گاؤں میں پیر کی صبح ہوئے۔
امینی کرد تھیں اور ان کی موت کو خاص طور پر ایران کے کرد علاقے میں محسوس کیا گیا جہاں 17 ستمبر کو ان کی تدفین کے موقع پر مظاہرے شروع ہوئے۔ ہینگا نے فوٹیج پوسٹ کی جس میں سنندج کے ایک محلے میں دھواں اٹھتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے جس کے ساتھ رائفل کی تیز فائرنگ کی آواز بھی سنی جا سکتی ہے اور لوگوں کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ فوری طور پر کوئی اطلاع نہیں کہ آیا تشدد میں لوگوں کو نقصان پہنچا ہے یا نہیں۔
SEE ALSO: ایران: صدر رئیسی کے یونیورسٹی کے دورے کے دوران 'نکل جاؤ' کے نعرےہینگا نے بعد میں ایک ویڈیو آن لائن پوسٹ کی جس میں رائفلوں اور شاٹ گنوں کے خالی شیلز کے ساتھ ساتھ آنسو گیس کے استعمال شدہ خول بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
حکام نے تہران سے تقریباً 400 کلومیٹر مغرب میں واقع سنندج میں پیر کے ابتدائی اوقات میں ہونے والے تشدد کے بارے میں فوری طور پر کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔ نیم سرکاری فارس نیوز ایجنسی نے پیر کو خبر دی کہ ایران کے صوبہ کردستان کے گورنر اسماعیل زری کوشا نے بغیر ثبوت فراہم کیے الزام لگایا ہے کہ نامعلوم گروہوں نے ہفتے کے روز سڑکوں پر نوجوانوں کو قتل کرنے کی سازش کی۔
کوشا نے ان نامعلوم گروہوں پر اس دن ایک نوجوان کے سر میں گولی مار کر اسے ہلاک کرنے کا الزام بھی لگایا۔ یہ ایک ایسا حملہ ہے جس کا الزام سرگرم کارکنوں نے ایرانی سکیورٹی فورسز پر لگایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایرانی فورسز نے اس وقت فائرنگ کی جب اس شخص نے اپنی گاڑی کا ہارن بجایا۔ ہارن بجانا اب ان طریقوں میں سے ایک ہے جن میں کارکنان سول نافرمانی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک ایسی ہی کارروائی میں دوسری ویڈیوز میں بلوہ پولیس کو گزرنے والی گاڑیوں کی سامنے والی سکرین کو توڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ہینگا نے بتایا کہ سنندج کے جنوب مغرب میں تقریباً 100 کلومیٹر دور واقع سالس باباجانی گاؤں میں ایرانی سیکورٹی فورسز نے احتجاج کرنے والے ایک بائیس سالہ شخص کو کئی بار گولی ماری جو بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔
SEE ALSO: آسکر جیتنے والے ستاروں کا اپنےبال کاٹ کر ایرانی خواتین کی حمایت کا اظہارہینگا نے مزید کہا کہ دیگر افراد فائرنگ میں زخمی ہوئے ہیں۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ مظاہروں میں کتنے لوگ مارے گئے ہیں۔ سرکاری ٹیلی ویژن نے بتایا ہے کہ 24 ستمبر تک مظاہروں میں کم از کم 41 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد سے دو ہفتوں سے زیادہ عرصے میں ایران کی حکومت کی طرف سے کوئی تازہ ترین اطلاع نہیں دی گئی۔
اوسلو میں قائم ایران ہیومن رائٹس نامی ایک گروپ کا اندازہ ہے کہ کم از کم 185 افراد مارے گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق مشرقی ایرانی شہر زاہدان میں تشدد میں ہلاک ہونے والے 90 افراد بھی اس میں شامل ہیں۔
لندن میں قائم گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ سکیورٹی فورسز نے 30 ستمبر کو خونریز کارروائی میں بچوں سمیت 66 افراد کو ہلاک کیا اور اس علاقے میں بعد کے واقعات میں مزید لوگ مارے گئے۔ ایرانی حکام نے تفصیلات یا ثبوت فراہم کیے بغیر زاہدان میں ہونے والے تشددمیں نامعلوم علیحدگی پسندوں کو ملوث قرار دیا ہے۔
SEE ALSO: یورپی یونین ایران پر پابندیاں لگائے: جرمنی کا مطالبہایک پراسیکیوٹر نے مبینہ طور پر بتایا کہ اس دوران رشت شہر کی ایک جیل میں فسادات ہوئے جس میں وہاں متعدد قیدی ہلاک ہو گئے۔ یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ آیا لکان جیل میں ہونے والے فسادات کا تعلق جاری مظاہروں سے تھا۔ اگرچہ امینی کی موت کے بعد رشت میں حالیہ ہفتوں میں زبردست مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں۔
نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی ن مہرنے گیلان کے صوبائی پراسیکیوٹر مہدی فلاح مری کے حوالے سے بتایا ہے کہ کچھ قیدی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے کیونکہ (جیل میں) بجلی منقطع ہو گئی تھی۔ انھوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ قیدیوں نے حکام کو زخمیوں تک رسائی کی اجازت دینے سے انکار کیا۔ مری نے یہ بھی کہا کہ یہ فساد سزائے موت کے قیدیوں کی رہائش گاہ کے ایک حصے میں ہوا تھا۔