امریکہ کے وزیرِ دفاع چک ہیگل نے کانگریس کو بتایا ہے کہ یوکرین میں روسی مداخلت کے جواب میں امریکہ نے روس کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں منسوخ کردی ہیں
واشنگٹن —
امریکہ کے وزیرِ دفاع چک ہیگل نے کانگریس کو بتایا ہے کہ یوکرین میں روسی مداخلت کے جواب میں امریکہ نے روس کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں منسوخ کردی ہیں جب کہ 'نیٹو' اور مشرقی یورپی ملکوں کے ساتھ اپنے فوجی روابط میں اضافہ کردیا ہے۔
بدھ کو 'کیپٹل ہِل' میں امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے امریکی وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ امریکہ یوکرین کے عوام کےساتھ کھڑے ہوکر ان کے ملک کی یکجتی اور خود مختاری کے تحفظ کے عزم کا اظہار کرچکا ہے اور باقی ملکوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔
جناب ہیگل نے سینیٹرز کو بتایا کہ امریکہ، یوکرین –روس تنازع کی کشیدگی کم کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے لیکن ساتھ ہی روسی مداخلت کے جواب میں یوکرین کی حکومت کے موقف کا بھی بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روسی جارحیت کے جواب میں پولینڈ میں موجود امریکی فضائیہ کا ایک دستہ مقامی فوج کے ساتھ تربیتی مشقوں میں مصروف ہے جب کہ امریکہ نیٹو کے 'فضائی پولیسنگ' مشن میں بھی پہلے سے زیادہ کردار ادا کر رہا ہے۔
جناب ہیگل نے قانون سازوں کو بتایا کہ امریکی مسلح افواج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے بدھ کی صبح اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ بات چیت کی ہے جب کہ خود وہ بھی بدھ کی شام اپنے یوکرینی ہم منصب کو ٹیلی فون کرکے صورتِ حال پر تبادلہ خیال کریں گے۔
چک ہیگل کے ہمراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی بھی سینیٹ کی کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے اور قانون سازوں کو یوکرین کی صورتِ حال اور اس پر امریکی فوج کے ردِ عمل سے آگاہ کیا۔
اپنے بیانِ حلفی میں جنرل ڈیمپسی کا کہنا تھا کہ روس کی یوکرین میں مداخلت کے بعد انہوں نے اوباما انتظامیہ کو امریکہ اور روس کے درمیان فوجی وفود کے تبادلے کا پروگرام معطل کرنے کی سفارش کی ہے۔
جنرل ڈیمپسی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے روسی ہم منصب جنرل ویلرے گیراسیموف کے ساتھ گفتگو میں زور دیا کہ روسی افواج آنے والے دنوں میں تحمل کا مظاہرہ کریں تاکہ بحران کے سفارتی حل کی کوششوں کو موقع مل سکے۔
بعض ری پبلکن قانون ساز صدر براک اوباما کی حکومت پر بین الاقوامی سیاست میں کمزور اور مبہم موقف اپنانے کا الزام عائد کرتے ہیں جس کےنتیجے میں، ان کے بقول، روس کو یوکرین پر چڑھائی کا موقع ملا ہے۔
کمیٹی کے رکن ری پبلکن سینیٹر اور سابق صدارتی امیدوار جان مک کین نے کہا کہ صدر اوباما اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن کے ارادوں کوبھانپنے میں ناکام رہے ہیں، جو ان کے بقول، "روسی سلطنت کو بحال کرنا چاہتےہیں"۔
دورانِ سماعت ڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی کا کہنا تھا کہ روسی مداخلت نئی بات نہیں اور روسی حکومت نے اس سے قبل سابق امریکی صدر جارج بش کے دور میں بھی جارجیا پر فوجی چڑھائی کی تھی۔
امریکی حکومت نے رواں ہفتے ہی یوکرین کے لیے ایک ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے کہ جس کا مقصد یوکرین کی معیشت کو سہارا دینا اور رواں سال ہونے والے انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنانا ہے۔
کمیٹی سے اپنے خطاب میں چک ہیگل نے امداد کے اعلان کو "انتہائی اہم" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے بحران کے پرامن حل کی راہ ہموار ہوگی۔
بدھ کو 'کیپٹل ہِل' میں امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے امریکی وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ امریکہ یوکرین کے عوام کےساتھ کھڑے ہوکر ان کے ملک کی یکجتی اور خود مختاری کے تحفظ کے عزم کا اظہار کرچکا ہے اور باقی ملکوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔
جناب ہیگل نے سینیٹرز کو بتایا کہ امریکہ، یوکرین –روس تنازع کی کشیدگی کم کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے لیکن ساتھ ہی روسی مداخلت کے جواب میں یوکرین کی حکومت کے موقف کا بھی بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روسی جارحیت کے جواب میں پولینڈ میں موجود امریکی فضائیہ کا ایک دستہ مقامی فوج کے ساتھ تربیتی مشقوں میں مصروف ہے جب کہ امریکہ نیٹو کے 'فضائی پولیسنگ' مشن میں بھی پہلے سے زیادہ کردار ادا کر رہا ہے۔
جناب ہیگل نے قانون سازوں کو بتایا کہ امریکی مسلح افواج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے بدھ کی صبح اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ بات چیت کی ہے جب کہ خود وہ بھی بدھ کی شام اپنے یوکرینی ہم منصب کو ٹیلی فون کرکے صورتِ حال پر تبادلہ خیال کریں گے۔
چک ہیگل کے ہمراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی بھی سینیٹ کی کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے اور قانون سازوں کو یوکرین کی صورتِ حال اور اس پر امریکی فوج کے ردِ عمل سے آگاہ کیا۔
اپنے بیانِ حلفی میں جنرل ڈیمپسی کا کہنا تھا کہ روس کی یوکرین میں مداخلت کے بعد انہوں نے اوباما انتظامیہ کو امریکہ اور روس کے درمیان فوجی وفود کے تبادلے کا پروگرام معطل کرنے کی سفارش کی ہے۔
جنرل ڈیمپسی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے روسی ہم منصب جنرل ویلرے گیراسیموف کے ساتھ گفتگو میں زور دیا کہ روسی افواج آنے والے دنوں میں تحمل کا مظاہرہ کریں تاکہ بحران کے سفارتی حل کی کوششوں کو موقع مل سکے۔
بعض ری پبلکن قانون ساز صدر براک اوباما کی حکومت پر بین الاقوامی سیاست میں کمزور اور مبہم موقف اپنانے کا الزام عائد کرتے ہیں جس کےنتیجے میں، ان کے بقول، روس کو یوکرین پر چڑھائی کا موقع ملا ہے۔
کمیٹی کے رکن ری پبلکن سینیٹر اور سابق صدارتی امیدوار جان مک کین نے کہا کہ صدر اوباما اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن کے ارادوں کوبھانپنے میں ناکام رہے ہیں، جو ان کے بقول، "روسی سلطنت کو بحال کرنا چاہتےہیں"۔
دورانِ سماعت ڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی کا کہنا تھا کہ روسی مداخلت نئی بات نہیں اور روسی حکومت نے اس سے قبل سابق امریکی صدر جارج بش کے دور میں بھی جارجیا پر فوجی چڑھائی کی تھی۔
امریکی حکومت نے رواں ہفتے ہی یوکرین کے لیے ایک ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے کہ جس کا مقصد یوکرین کی معیشت کو سہارا دینا اور رواں سال ہونے والے انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنانا ہے۔
کمیٹی سے اپنے خطاب میں چک ہیگل نے امداد کے اعلان کو "انتہائی اہم" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے بحران کے پرامن حل کی راہ ہموار ہوگی۔