ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک کے مطابق یوکرین میں جنگ اور معاشی بحران نے دنیا بھر میں جمہوریت کی صورتِ حال کو متاثر کیا ہے اور دنیا کے نصف سے زائد جمہوری ممالک میں جمہوریت کمزور ہو رہی ہے۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فور ڈیموکریسی اینڈ الیکٹرول اسسٹنس(آئیڈیا) کے ڈائریکٹر کیساس زیمورا کا کہنا ہے کہ ہم اس وقت دنیا میں جمہوریت کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ سیاست میں آنے والی گراوٹ کا بنیادی سبب یوکرین جنگ کے باعث پیدا ہونے والے معاشی بحران ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جمہوریت و سیاست میں گراوٹ سے مراد یہ ہے کہ انتخابات کی شفافیت پر سوال بڑھ رہے ہیں۔ قانون کی حکمرانی خطرے میں ہوسکتی ہے اور شہریوں کی آزادیوں پر حد بندیاں بڑھتی جاری ہیں۔
انٹرنیشنل آئیڈیا کی جاری کردہ درجہ بندی میں ایسے ممالک کو ’بیک سلائیڈنگ‘ کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے جن کا نظام جمہوری تو ہے لیکن وہاں جمہوریت گراوٹ کا شکار ہوئی ہے۔
ان ممالک کی تعداد بڑھ کر چھ ہوگئی ہے اور ان میں امریکہ، برازیل، ہنگری، بھارت، موریشس ، پولینڈ کے علاوہ رواں برس ایل سلواڈور بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
حالیہ رپورٹ میں امریکہ کے بارے میں آئیڈیا کے ڈائریکٹر کیساس زیمورا نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہم امریکہ میں دیکھ رہے ہیں وہ بہت فکر مندی کی بات ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ میں سیاسی تقسیم بڑھتی جارہی ہے، ادارے غیر مؤثر ہورہے ہیں اور شہری آزادیوں کو خدشات لاحق ہیں۔
SEE ALSO: چینی مظاہروں میں طلبا ’’فریڈمان مساوات‘‘ کا استعمال کیوں کر رہے ہیں؟کیساس زیمورا کا کہنا ہے کہ انتخابی نتائج کی شفافیت پر بلا ثبوت سوال اٹھانے کے نئے سیاسی رجحان کی وجہ سے امریکہ میں سیاسی تقسیم اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب صرف نئی حکومت کے انتخابات سے یہ خلیج دور نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ جنسی اور تولیدی حقوق میں دو قدم پیچھے ہٹا ہے۔ یہ اس لیے غیر معمولی ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک اس حوالے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
’آمریت بڑھ رہی ہے‘
انٹر نیشنل آئیڈیا کی رپورٹ میں 173 ممالک کا جائزہ شامل ہے جن میں سے 104 جمہوری ممالک ہیں اور 52 ممالک میں جمہوریت گراوٹ کا شکار ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ 27 ممالک آمریت کی جانب بڑھ رہے ہیں جب کہ جمہوریت کی جانب سفر کرنے والے ممالک اس تعداد سے نصف یعنی 13 ہیں۔
اسی طرح 2022 میں دنیا کی مختلف مطلق العنان حکومتوں کے جبر میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں اس حوالے سے خاص طور پر افغانستان، بیلاروس، کمبوڈیا، مشرقی افریقی ملک کوموروس، نکاراگوا کا ذکر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برِ اعظم ایشیا کی 54 فی صد آبادی ایسے جمہوری نظام میں رہتی ہے جہاں آمرانہ طرزِ حکمرانی بڑھی ہے۔ جب کہ افریقہ نے مشکل حالات کے باوجود آمریت کے خلاف مزاحمت دکھائی ہے۔
عرب دنیا میں جمہوریت کے لیے اٹھنے والی احتجاجی لہر ’عرب بہار‘ کو گزرے ایک دہائی ہوچکی ہے۔ لیکن مشرقِ سطیٰ دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں سب سے زیادہ مطلق العنان حکومتیں قائم ہیں اور سوائے عراق، اسرائیل اور لبنان کے کہیں جمہوریت نہیں۔
یورپ میں تقریباً نصف یعنی 17 ممالک میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران جمہوری نظام کمزور ہوا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں فوج کے سربراہان: کون، کب اور کتنا اہم رہا؟پاپولر سیاست کرنے والوں سے جمہوریت کو خطرہ
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جمہوری ممالک کو عدم استحکام اوربے چینی کے حالات میں اپنا توازن برقرار رکھنے کا مسئلہ درپیش ہے۔
خاص طور پر پاپولسٹ سیاست دان دنیا میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور عوامی مقبولیت کی بنیاد پر ان کی سیاسی مہمات سے جمہوریت یا تو جمود کا شکار ہے یا ابتری کا۔
ڈائریکٹر آئیڈیا کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں جمہوریت کی ترقی رک گئی ہے جو کہ ہمارے عہد کے اہم ترین مسائل میں شامل ہے۔
بہتری کے امکان
آئیڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشکلات بڑھنے کے ساتھ ساتھ بہتری کے امکان بھی پیدا ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کئی ممالک میں عوام کے اپنی حکومتوں سے اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔
ایشیا میں بچوں کی صحت اور لاطینی امریکہ میں تولیدی حقوق سے متعلق آگاہی بڑھی ہے اور اسی طرح عالمی سطح پر نوجوان ماضی کے مقابلے میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے زیادہ پرجوش انداز میں آواز اٹھا رہے ہیں۔
SEE ALSO: صدرشی کی تیسری مدت حکومت میں کیا چین کے دنیا سے تعلقات مزید کشیدہ ہوں گے؟انٹرنیشنل آئیڈیا کے ڈائریکٹر کیساس زیمورا کا کہنا ہے کہ ایران جیسے ملک بھی ہیں جہاں لوگ اب آزادی، برابری اور وقار کے لیے گھروں س نکل رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ کہیں کہیں دیے ٹمٹماتے نظر آتے ہیں لیکن مجموعی طور پر تاریکی زیادہ ہے۔