|
حماس کی سیاسی قیادت اس وقت تک دوحہ میں رہے گی جب تک کہ ان کی موجودگی غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ثالثی کی کوششوں کے لیے مفید رہے گی، یہ بات قطر نے منگل کے روز کہی ہے۔
ثالثوں کی جانب سےرمضان کے مہینے میں لڑائی میں کوئی وقفہ لانے میں ناکامی کے بعد، قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمٰن بن جاسم الثانی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ قطر اپنے کردار کا از سر نو جائزہ لے رہا ہے۔
اس اعلان کے بعد قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ حماس کو خلیجی ریاست چھوڑنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔
SEE ALSO: غزہ جنگ بندی کے معاہدے پر اسرائیل سے تعطل برقرار ہے: حماسقطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ جب تک دوحہ میں ان کی(حماس قیادت) موجودگی جیسا کہ ہم نے ہمیشہ کہا ہے، ثالثی کی کوشش میں مفید اور مثبت ہے، وہ یہاں رہیں گے۔
انصاری نے تصدیق کی کہ قطر اپنے ثالثی کے کردار کا از سر نو جائزہ لے رہا ہے اور یہ کہ دوحہ میں حماس کے ارکان کی موجودگی کے بارے میں کوئی فیصلہ اس وقت تک نہیں کیا جائے گا جب تک کہ ہم وہ جائزہ مکمل نہیں کر لیتے۔
قطر وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو سمیت اسرائیلی حکام کی جانب سے اپنی ثالثی کی کوششوں پر اکثر اوقات کی جانے والی تنقید کو مسترد کر چکا ہے۔
انصاری نے منگل کے روز کہا کہ ان کوششوں کا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ سیاسی بنیاد پر کی جانے والی تنقید سے مایوسی کی وجہ سے کیا گیا ہے ، جس میں وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کے وزرا شامل ہیں جو قطری ثالثی کے بارے میں منفی بات چیت کرتے رہے ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا: "وہ سب جانتے ہیں کہ قطری کردار کیا ہے، اس کی نوعیت اور پچھلے مرحلےکی تفصیلات کیا ہیں اور انہوں نے جھوٹ بولا۔"
قطر، جس نے 2012 سے حماس کی سیاسی قیادت کی امریکہ کی حمایت سے میزبانی کی ہے، کئی ہفتوں سے غزہ میں ممکنہ جنگ بندی اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کے لیے پس پردہ مذاکرات میں مصروف ہے۔
قطر اس سے پہلے طالبان کے ساتھ مزاکرات میں بھی کلیدی کردار ادا کر چکا ہے۔خطے میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈا، العدید ایئر بیس بھی قطر میں ہے، جو دوحہ کے جنوب مغرب میں صحرا میں واقع ہے۔
SEE ALSO: نیتن یاہو: حماس کے جنگ بندی مطالبات مسترد، 'مکمل فتح' تک لڑنے کا عزمغزہ جنگ بندی کے بارے میں قطر کی ثالثی میں ہونے والے مزاکرات میں صرف ایک وقفہ کروانے میں کامیابی ہوئی ہے۔ نومبر میں ایک ہفتہ پر محیط اس جنگ بندی کے دوران متعدد اسرائیلی اور غیر ملکی یرغمالوں کو رہا کیا گیاتھا۔
غزہ جنگ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے ایک غیر معمولی حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی اعداد وشمار کی بنیاد پر فراہم کی جانے والی معلومات میں اس حملے میں تقریباً 1,170 افراد ہلاک ہوئے تھے ، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، جب کہ تقریباً 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
حماس کے حملے کے رد عمل میں اسرائیل کی فوج کی جوابی کارروائی میں حماس کے زیر انتظا م وزارت صحت کے مطابق ، غزہ میں 34,183 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔