پاکستان میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے بھارت کے ساتھ جنگ نہ کرنے اور پاکستان فوج کی صلاحیت سے متعلق بیان اور مسئلۂ کشمیر پر بات چیت کے بارے میں انکشافات کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے شدید ردعمل آرہا ہے۔
سینئر صحافی حامد میر نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور عمران خان کو کشمیر میں مودی کے 5 اگست 2019 کے اقدامات کا مبینہ طور پر پہلے سے علم تھا اور وہ پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہ رہے تھے۔
پاکستان کے نجی چینل '24 نیوز' پر اینکر پرسن نسیم زہرہ کے شو میں کیے گئے انکشافات کے مطابق حامد میر کے بقول جنرل باجوہ نے 25 صحافیوں کے سامنے کہا تھاکہ "ہم جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہیں، لہٰذا ہمیں بھارت سے صلح کرلینی چاہیے۔"
پاکستان فوج نے اس بارے میں ابھی تک کوئی باقاعدہ ردعمل نہیں دیا ہے۔ البتہ فوج کے قریب سمجھے جانے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف نے معاشی مشکلات کا تو کہا ہوگا لیکن بھارت کے ساتھ جنگ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کا بیان مبالغہ آرائی ہے۔
نسیم زہرہ کے ٹاک شو میں حامد میر کا دعوی تھا کہ کشمیر کا سودا جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیا جس کی تفصیلات قوم کے سامنے نہیں آئیں۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں سیز فائر یعنی جنگ بندی کے اعلان کے بعد مودی نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا۔ اس بارے میں شاہ محمود قریشی کو جب پتہ چلا تو انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے بات کی۔ اس پر عمران خان نے انہیں بتایا کہ جنرل باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض اس بارے میں بھارتی قومی سلامتی کے مشیراجیت دوول سے بات چیت کررہے ہیں۔
حامد میر کے مطابق اس کے بعد عمران خان نے جنرل فیض کو کہا کہ وزارت خارجہ کو "آن بورڈ" لیا جائے جس کے بعد جنرل باجوہ نے وزارت جارجہ میں ایک بریفنگ کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہمارا جنگی سازوسامان بہت پرانا ہوچکا ہے اور ہم بھارت کے ساتھ جنگ نہیں لڑ سکتے۔
حامد میر نے نسیم زہرہ کو بتایا کہ جنرل باجوہ اس سے پہلے ایسی بریفنگ ہم صحافیوں کو بھی دے چکے تھے جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جنگی صلاحیت بھارت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
جب حامد میر نے کہا کہ جنرل باجوہ نے 25 صحافیوں کے سامنے کہا کہ ہم جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہیں، لہٰذا ہمیں بھارت سے صلح کرلینی چاہیے تو اینکر پرن نسیم زہرہ نے کہا کہ عام طور پر ایسے بیان پر آرمی چیف کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔
حامد میر کے اس بیان پر بعض حلقوں کی جانب سے تنقید بھی کی گئی اورکہا جار ہا ہے کہ انہوں نے یہ بات اسی وقت عوام کو کیوں نہیں بتائی جب انہیں اس کا پتہ چلا تھا؟
’یہ بات پہلے بھی کرچکا ہوں‘
حامد میرنے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ بات پہلے بھی کی تھی ۔" یہی بات دسمبر میں ہوئی تھی اور مئی 2021 میں اس وقت کی تھی جب اپریل میں ہمیں بریفنگ دی گئی اور اس کے چند دن بعد صحافی اسد طور پر حملہ ہوا تو نیشنل پریس کلب کے باہر مظاہرے کے دوران میں نے یہی بات کی تھی کہ ہمیں بتایا جارہا ہے ہم بھارت سے لڑنے کے قابل نہیں ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر رد عمل اس وجہ سے زیادہ آرہا ہے کہ پی ٹی آئی اور پاکستان فوج دونوں کو اس سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان کے بقول پاکستان فوج سمجھتی ہے کہ عمران خان نے کشمیر کا سودا کیا جب کہ اب پی ٹی آئی کہہ رہی ہے کہ جنرل باجوہ نے کشمیر کا سودا کیا۔
تحقیقات کے سوال پر حامد میر کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کون کرے گا، کیوں کہ" پوری کی پوری ریاست اس میں ملوث ہے"۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اس بارے میں عمران خان کی حکومت کے دوران کشمیر کے حوالے سے مودی کے اقدامات سے قبل بتایا تھا کہ "یہ معاملہ ختم ہونے جارہا ہے۔ اس میں امریکی صدر ٹرمپ بھی شامل تھے اور جنرل باجوہ نے جنرل فیض کے ساتھ مل کر بالا ہی بالا سب معاملات طے کردیے تھے۔"
حامد میر نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ جنرل باجوہ نے کئی بار یہ بات کی جس پر میں نے ان سے کہا کہ مسئلہ کشمیر بات چیت کے ذریعے حل ہونا چاہیے اور بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے چاہیئں۔ لیکن یہ سب پارلیمنٹ کے ذریعے ہونا چاہیے اور "اس پر جنرل باجوہ کا ایک ہی ردعمل ہوتا تھا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کیوں کہ پارلیمان میں جان ہی نہیں ہے کہ وہ یہ سب بات چیت کرسکے"۔
حامد میر کے بقول "میں نے ان سے کئی بار کہا کہ مشرف نے بیک ڈور چینل سے من موہن سنگھ سے بات کی لیکن وہ ناکام رہے۔ اب بھی بیک ڈور کے ساتھ بات چیت ناکام رہے گی ۔ جس طریقے سے یہ لوگ بات کررہے تھے وہ درست نہیں تھی کہ ملک میں کسی کو پتا ہی نہیں اور جنرل فیض اجیت دوول کے ساتھ مل کرمسئلہ کشمیر حل کررہے تھے۔"
’جنرل باجوہ یہ نہیں کہہ سکتے‘
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئیر ریٹائرڈ حارث نواز نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنرل باجوہ نے یہ بات ضرور کی ہو گی کہ ہمارے پاس معاشی حالات کی وجہ سے گولہ بارود کی کمی ہوسکتی ہے لیکن وہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم بھارت سے جنگ نہیں لڑ سکتے۔ کوئی بھی آرمی چیف ایسا کبھی نہیں کہہ سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ پلوامہ میں 2019کے واقعات کے بعد فروری میں پاکستان نے بہترین انداز میں بھارت کو جواب دیا تھا۔ 5 اگست 2019 کے اقدامات کے بعد بھی بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کو ڈاؤن گریڈ کیا گیا اور بھارتی سفیر کو واپس بھجوا دیا گیا تھا۔ دوطرفہ تجارت ختم کردی گئی اور اس اقدام پر بھرپور ردِ عمل دیا گیا۔
حارث نواز نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے دفاعی بجٹ میں بہت زیادہ فرق ہونے کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ کم سے کم دفاعی صلاحیت برقرار رکھی ہے اور پاکستان کی افواج ہمیشہ مکمل تیار ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو کچھ جنرل باجوہ کے حوالے سے کہا جارہا ہے تو کیا یہ اس قدر آسان ہے کہ دفترِ خارجہ کے چند افسران کی وجہ سے ملک کا سب سے طاقت ور ادارہ اور طاقت ور ایجنسی مسئلہ کشمیر حل نہیں کرسکی۔ ان کے بقول "یہ بات بہت حد تک احمقانہ لگتی ہے" اور اس بارے میں حالیہ دنوں میں کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال کے بیانات کا جائزہ بھی لینا چاہیے۔
SEE ALSO: پلوامہ حملے پر کشمیر کے سابق گورنر کا بیان، 'مودی کو خاموشی توڑنی چاہیے'حامد میر کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں جو کچھ جنرل باجوہ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا اس کا ایک ثبوت 25 جولائی 2019کو ان کے لکھے ہوئے ایک کالم سے بھی پتہ چلتا ہے جس میں انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ اور مودی کی ملاقاتوں کے بارے میں بتایا تھا۔
بعد ازاں روزنامہ ’جنگ‘ میں شائع ’تھوڑی سی سچائی‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے اپنے کالم میں بھی حامد میر نے کہا کہ انہوں نے جنر ل فیض حمید اور اجیت دوول کے بیک ڈور رابطوں سمیت دیگر تفصیلات بیان کی تھیں۔
بھارتی میڈیا کی کوریج
حامد میر کا کہنا تھا کہ کشمیر اور پاکستان کی جنگی صلاحیت کے بارے میں اس بیان کے بعد بھارت کے مختلف اخبارات میں اس بارے میں بہت زیادہ بات کی جارہی ہے۔ ان کے بقول بھارت میں جنرل باجوہ کے مؤقف کی تائید کی جارہی ہے اور مجھ پر تنقید کی جارہی ہے۔
بھارت کے مختلف اخبارات اور نیوز ویب سائٹس نے حامد میر کے انکشافات کے بعد مختلف رپورٹس شائع کی ہیں جن میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے مبینہ دورۂ پاکستان اور بھارت کے خلاف پاکستان کی جنگی صلاحیت سے متعلق نکات کو نمایاں کوریج دی گئی ہے۔
پی ٹی آئی کا ردعمل
پاکستان تحریک انصاف کی شیریں مزاری نے اس بارے میں ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ جنرل باجوہ کے بارے میں حامد میر اور نسیم زہرہ نے جو کچھ کہا وہ درست ہے۔
انہوں نے کہا کہ حامد میر نے جنرل باجوہ کے حوالے سے کہا کہ وہ کشمیر کے بارے میں ڈیل کرنا چاہتے تھے تو یہ درست بات ہے۔ اجیت دوول پاکستان کا دورہ کرنا چاہتے تھے لیکن عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے اس بارے میں انکار کردیا تھا۔
شیریں مزاری نے کہا کہ پاکستان کے جنگ کے لیے تیار نہ ہونے کے بارے میں جو بات چیت سامنے آرہی ہے، اس بارے میں پاکستان کو باقاعدہ بیان کے ذریعے وضاحت کرنی چاہیے۔
"اگر ایسا کوئی بیان ہے تو یہ سیکیورٹی بریچ ہے اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ کہاں جا رہا ہے۔ " ان کے بقول میرے خیال میں یہ بیان درست نہیں اور اس کی تردید آنی چاہیے۔
شیریں مزاری نے کہا کہ اس بارے میں جنرل باجوہ نے جو کچھ صحافیوں کو کہا وہ نسیم زہرہ کو پہلے سامنے لے کر آنا چاہیے تھا یہ اس وقت سامنے آرہا ہے جب جنرل باجوہ ریٹائر ہوچکے ہیں۔
تحریکِ انصاف کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر کے ٹوئٹ کے جواب میں صحافی نسیم زہرا نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ میڈم مزاری اپنی مرضی کی باتیں یاد رکھنا چاہتی ہیں۔ جنرل باجوہ کے مؤقف پر سرِ عام اور ان کی موجودگی میں اس وقت تنقید کی تھی جب وہ اپنے عہدے پر تھے۔
نسیم زہرا نے مزید کہا کہ اس دوران میڈم مزاری کے لیڈر انہی جنرل باجوہ کو تیسری بار ملازمت میں توسیع دینے کی پیش کش کررہے تھے جن کی بھارت سے متعلق پالیسی سے انہیں اختلاف تھا۔
اس کا جواب دیتے ہوئے اپنے ایک اور ٹوئٹ میں شیریں مزاری نے کہا کہ وہ ہرگز اپنی مرضی کی باتیں یاد نہیں کرارہیں۔ انہوں نے نسیم زہرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جنرل باجوہ پر من مانی تنقید کررہی ہیں۔