سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب میں وزیرِ اعلٰی کے انتخاب کے معاملے پر اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو پیر تک ٹرسٹی وزیرِ اعلٰی کے طور پر کام کرنے کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رُولنگ غلط ہے۔
چوہدری پرویز الہٰی نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹ مسترد کر کے آئین سے اںحراف کیا۔
ملک کی سیاست کے اس اہم مقدمے کی سماعت ہفتے کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی لاہور رجسٹری میں ہوئی۔ تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ق) کی جانب سے جمعے کی شب ہی دوست محمد مزاری کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
دورانِ سماعت تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے وزارتِ اعلٰی کے انتخاب کے دوران سپریم کورٹ کے فیصلے کا غلط حوالہ دیا۔
اُ ن کا کہنا تھا کہ وزیر اعلٰی کے انتخاب میں حمزہ شہباز نے 179 جب کہ چوہدری پرویز الہٰی نے 186 ووٹ لیے، لہذٰا پنجاب کے آئینی وزیرِ اعلٰی چوہدری پرویز الہٰی ہیں۔
علی ظفر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے خط کا حوالہ دے کر مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹ مسترد کر دیے جو سراسر غیر آئینی ہے۔
دورانِ سماعت سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کو بھی طلب کر لیا، لیکن اُن کی جانب سے عرفان قادر ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
عرفان قادر نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 63اے سے متعلق عدالتِ عظمی کے فیصلوں میں تشریح موجود ہے۔اُنہوں نے ڈپٹی اسپیکر کی رُولنگ پڑھتے ہوئے کہا کہ خود کو ڈپٹی اسپیکر کی جگہ پر رکھیں۔ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کی رُولنگ کو درست سمجھا۔ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ پارٹی چیف ہوتا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کی رُولنگ کو غلط سمجھا۔
'بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رُولنگ غلط ہے'
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ اہم معاملہ ہے، اسے جلد سنا جانا چاہیے۔ دوسرے فریق کو سنے بغیر فیصلہ نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رُولنگ غلط ہے۔ اگر پیر کو یہ معاملہ حل نہ ہو سکا تو پھر یہ کیس اسلام آباد میں سنیں گے۔ہم جمہوریت کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ایک چیز پر نہیں رُکی رہتی، ہمارے پاس قلم ہے۔ منگل سے زیادہ اس کیس کو نہیں چلائیں گے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر دونوں پارٹیاں حقیقت میں ملک کی خدمت کرنا چاہتی ہیں تو مل کر بیٹھیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حمزہ شہباز شریف کو ہدایت کی کہ وہ بطور وزیرِ اعلٰی پیر تک کوئی بڑا فیصلہ نہ کریں اور عبوری وزیرِ اعلٰی کے طور پر کام کریں۔
اس سے قبل ہفتے کو سماعت شروع ہوئی تو کمرۂ عدالت میں رش کی وجہ سے دھکم پیل ہوئی اور کمرہ عدالت کے دروازے کے شیشے ٹو ٹ گئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ متعلقہ افراد ہی سماعت میں آئیں اور اس کے لیے اُنہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت کا فیصلہ کیا۔
حکمران اتحاد کا مشترکہ متفقہ اعلامیہ جاری
سپریم کورٹ میں سماعت کے ساتھ ہی حکمراں اتحاد نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں معاملے کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ حکمران اتحاد میں شامل تمام جماعتیں چیف جسٹس پاکستان سے پر زور مطالبہ کرتی ہیں کہ وزیر اعلی پنجاب کے انتخاب سے متعلق مقدمے کی سماعت فل کورٹ کرے۔
مشترکہ متفقہ اعلامیے میں کہا گیا ہے قرین انصاف ہوگا کہ عدالت عظمیٰ کے تمام معزز ججز پر مشتمل فل کورٹ ،سپریم کورٹ بار کی نظرِ ثانی درخواست موجودہ درخواست اور دیگر متعلقہ درخواستوں کو ایک ساتھ سماعت کے لیے مقرر کرکے اس پر فیصلہ صادر کرے کیوں کہ یہ بہت اہم قومی، سیاسی اور آئینی معاملات ہیں۔
اعلامیے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ''عمران خان بار بار سیاست میں انتشار پیدا کر رہے ہیں جس کا مقصد احتساب سے بچنا، اپنی کرپشن چھپانا اور چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنا ہے۔''
اس مشترکہ اعلامیے کے مطابق حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں اس عزم کا واشگاف اعادہ کرتی ہیں کہ آئین، جمہوریت اور عوام کے حق حکمرانی پر ہر گز کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ ہر فورم اور ہر میدان میں تمام اتحادی جماعتیں مل کر آگے بڑھیں گی اور فسطائیت کے سیاہ اندھیروں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گی۔
ہم سری لنکا جیسی صورتِ حال سے زیادہ دُور نہیں ہیں: عمران خان
تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے محض تین ماہ کے اندر ملکی معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم سری لنکا جیسی صورتِ حال سے زیادہ دُور نہیں ہیں جب عوام کا سمندر سڑکوں پر اُمڈ آئے گا۔
سربراہ تحریکِ انصاف کے بقول زرداری اور شریف خاندان 30 سال سے پاکستان پر قابض ہیں، ادارے کب تک اس کی اجازت دیتے رہیں گے؟