صدارتی الیکشن میں ایک دن باقی؛ ٹرمپ اور کاملا نے ایک دوسرے کو 'ناموزوں' قرار دے دیا

  • ٹرمپ اور کاملا ہیرس نے سوئنگ ریاستوں میں مختلف مقامات پر عوامی اجتماعات سے خطاب کیے ہیں۔
  • سیاسی پنڈتوں کے مطابق سات سوئنگ ریاستوں میں سے بھی جو امیدوار چار یا اس سے زائد ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لے گا، وہ ملک کا 47واں صدر ہوگا۔
  • کاملا ہیرس تذبذب کے شکار ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے سوئنگ ریاست مشی گن پہنچیں۔
  • ٹرمپ نے اتوار کو دن کا آغاز ریاست پینسلوینیا کے قصبے لیٹٹز سے کیا جس کے بعد وہ ریاست نارتھ کیرولائنا کے شہر کنسٹن پہنچے۔ ٹرمپ نے ریاست جارجیا کے شہر میکن میں بھی جلسے سے خطاب کیا۔
  • کاملا اپنے مخالف امیدوار ٹرمپ کو ایک خطرناک اور غیر متوقع شخصیت کے طور پر پیش کر رہی ہیں اور انہوں نے امریکیوں پر زور دیا ہے کہ وہ ٹرمپ کی افراتفری پر مبنی سیاسی سمجھ بوجھ سے باہر نکلیں۔
  • منگل کو آپ کو کھڑے ہونا ہو گا اور کاملا کو بتانا ہو گا کہ آپ اپنا کام کر چکی ہیں اور آپ مزید اقتدار میں نہیں رہ سکتیں، ٹرمپ

ویب ڈیسک _ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ایک دن باقی رہ گیا ہے اور دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے ویک اینڈ پر سوئنگ ریاستوں میں ایسے ووٹرز کے پاس پہنچنے کی کوشش کی جو اب تک اپنے ووٹ کے فیصلے کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کر سکے ہیں۔

منگل کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں نائب صدر اور ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کاملا ہیرس کا مقابلہ سابق صدر اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے ہے۔

سیاسی پنڈتوں کے مطابق سات سوئنگ ریاستوں میں سے بھی جو امیدوار چار یا اس سے زائد ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لے گا، وہ ملک کا 47واں صدر ہوگا۔

امریکی انتخابی سیاست میں سوئنگ ریاستیں ان ریاستوں کو کہا جاتا ہے جہاں کسی بھی امیدوار کی کامیابی کے بارے میں یقین سے کچھ نہ کہا جا سکے۔ ایسی ریاستوں میں ان ووٹرز کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو آخری وقت تک یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ انہیں کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔

ایسے ہی ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کاملا ہیرس اتوار کو ریاست مشی گن پہنچیں۔

مشی گن سات سوئنگ ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو گا اور انتخابی نتیجے سے متعلق کچھ کہنا بھی قبل از وقت ہو۔

دوسری جانب ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ تین سوئنگ اسٹیٹس کے مختلف شہروں میں ان دیہی علاقوں میں پہنچے جہاں انہیں توقع ہے کہ کاملا ہیرس کے مقابلے میں انہیں زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکی ریاست وسکونسن وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کے لیے اہم کیوں؟

ٹرمپ نے اپنے دن کا آغاز ریاست پینسلوینیا کے قصبے لیٹٹز سے کیا جس کے بعد وہ دوپہر کے وقت ریاست نارتھ کیرولائنا کے شہر کنسٹن پہنچے۔ ٹرمپ نے اتوار کو آخری اجتماع شام کے وقت ریاست جارجیا کے شہر میکن میں کیا۔

گزشتہ منگل کے بعد یہ پہلا دن تھا جب دونوں امیدواروں نے ایک روز کے دوران ایک ہی ریاست میں انتخابی جلسہ نہیں کیا۔

ہیرس نے مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں سیاہ فاموں کے چرچ میں ایک تقریب میں شرکت کی جس کے بعد انہوں نے کارساز کمپنیوں لیورنائس اور پونٹیاک میں کچھ قیام کیا۔ بعد ازاں انہوں نے شام کے وقت مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔

واضح رہے کہ پانچ نومبر کو ہونے والی پولنگ سے قبل ساڑھے سات کروڑ سے زائد امریکی ووٹرز بذریعہ میل یا پولنگ اسٹیشن پر جا کر ووٹ کا حق استعمال کر چکے ہیں۔

جوں جوں پانچ نومبر کو پولنگ کا وقت قریب آ رہا ہے، دونوں صدارتی امیدوار ایک دوسرے کو آئندہ چار سالہ حکمرانی کے لیے ناموزوں قرار دے رہے ہیں۔

ٹرمپ نے سوشل پلیٹ فارم 'ٹروتھ' پر ایک پیغام میں کہا کہ " ہمیں اس وقت درپیش ہر مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے لیکن قوم کی قسمت کا فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔"

ٹرمپ نے کہا کہ منگل کو آپ کو کھڑے ہونا ہو گا اور کاملا کو بتانا ہو گا کہ آپ اپنا کام کر چکی ہیں اور آپ مزید اقتدار میں نہیں رہ سکتیں۔

دوسری جانب کاملا اپنے انتخابی جلسوں میں ووٹرز کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ ملک کی صدر بن کر اشیا کی قیمتوں میں کمی لائیں گی۔

امریکہ بھر میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ووٹرز کے لیے ایک بڑے مسئلے طور پر سامنے آیا ہے۔

کاملا اپنے مخالف امیدوار ٹرمپ کو ایک خطرناک اور غیر متوقع شخصیت کے طور پر پیش کر رہی ہیں اور انہوں نے امریکیوں پر زور دیا ہے کہ وہ ٹرمپ کی افراتفری پر مبنی سیاسی سمجھ بوجھ سے باہر نکلیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکی انتخابات: مشی گن کے مسلمان امریکی ووٹرز اہم کیوں؟

کاملا نے ہفتے کو نارتھ کیرلائنا کے شہر شارلٹ میں کہا تھا کہ اس انتخابات میں ہمارے پاس ایک موقع ہے کہ ہم ڈونلڈ ٹرمپ کی تقسیم اور ایک دوسرے کو خوفزدہ کرنے کی کوششوں کو پلٹ کر رکھ دیں۔

واضح رہے کہ امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج کا فیصلہ نیشنل پاپولر ووٹ نہیں بلکہ الیکٹورل کالجز کے ذریعے ہوتا ہے۔

ہر ریاست میں الیکٹورل ووٹ کی تعداد آبادی پر منحصر ہے۔ لہذا قومی سطح پر انتخابی نتیجے کا انحصار بڑی ریاستوں پر بھی ہوتا ہے۔ صدارتی الیکشن جیتنے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 538 الیکٹورل ووٹ میں سے 270 درکار ہیں۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ہیرس یا ٹرمپ 43 ریاستوں میں کافی حد تک یا آسانی کے ساتھ برتری رکھتے ہیں، جہاں سے انہیں 200 یا اس سے زیادہ الیکٹورل ووٹ مل سکتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک ریاست میں اپ سیٹ کو چھوڑ کر انتخابی نتیجے کا انحصار بقیہ سات سوئنگ اسٹیٹس کے نتائج پر ہو گا۔