|
کراچی _ پاکستان اور سعودی عرب نے معیشت کے مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے ایک ماہ میں مجموعی طور پر 34 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں جس کی مالیت ڈھائی ارب ڈالر سے زائد بتائی جاتی ہے۔ تاہم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نئی سرمایہ کاری سے قبل سعودی عرب یقین دہانیاں حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں پاکستانی وفد کے حالیہ دورۂ سعودی عرب اور قطر کو کامیاب قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں سے ملکی معیشت پر بہتر اثر پڑے گا۔
لیکن معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں اصلاحات کے بغیر بیرونی سرمایہ کاری کی کوششیں زیادہ بار آور ثابت نہیں ہوں گی۔
سعودی وزیر برائے سرمایہ کاری خالد الفالح نے بدھ کو بتایا کہ پاکستان کے ساتھ میمورینڈم آف انڈسٹراسٹینڈنگز (ایم او یوز) کی کل مالیت دو اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر تک ہوگئی ہے اور ابھی یہ صرف آغاز ہے۔
ان کے بقول پاکستان میں مختلف شعبوں میں سعودی سرمایہ کاری میں مزید اضافہ کیا جائے گ اور یہ پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لیے سعودی حکومت کے عزم کا اظہار ہے۔
خالد الفالح کے مطابق مفاہمتی یادداشتوں کے نتائج اگلے چند ہفتوں میں سامنے آنے لگ جائیں گے۔
دونوں حکومتی نمائندوں کے مطابق سعودی عرب اور پاکستان نے معاشی تعاون میں زراعت، مینوفیکچرنگ، توانائی، صحت کی دیکھ بھال اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق مختلف شعبوں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کو ترجیحی فہرست میں رکھا ہے۔
معاشی ماہر اور عارف حبیب کموڈیٹیز کے منیجنگ ڈائریکٹر احسن محنتی کہتے ہیں سعودی عرب چاہتا ہے کہ پاکستان کی سرمایہ کاری اور اس سے متعلقہ پالیسیز مستقل مزاجی سے چلیں۔ اسی لیے سعودی حکام حکومتِ پاکستان سے بار بار مذاکرات کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی سرمایہ کاری کو محفوظ بناسکیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی حکومت نے اپنے تحفظات حکومت کے ساتھ شیئر کیے ہیں۔ اور انہیں اب یہ انتظار ہے کہ پاکستان ان تحفظات کو کیسے دور کر پاتا ہے۔
'قطر بھی تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر رضا مند'
احسن محنتی کے مطابق سعودی سرمایہ کاری اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ ملک میں اس وقت دیگر ممالک کے مقابلے میں چین کی سرمایہ کاری زیادہ ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کو وسعت دے کر اس میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو بھی شامل کیا جائے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے جمعے کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ قطر بھی پاکستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر رضا مند ہو گیا ہے اور یہ رقم توانائی، کان کنی و معدنیات اور آئی ٹی کے شعبوں میں لگائی جائے گی۔
دوسری جانب سعودی عرب نے بلوچستان میں سونے اور تانبے کی کی کان کنی کے منصوبے میں حکومتی حصص حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی اور اس کے لیے 15 فی صد سرمایہ کاری کی پیشکش بھی کی تھی۔
حکومتِ پاکستان آنے والے چند سالوں میں کان کنی اور زراعت کے شعبے میں سعودی عرب سے تقریباً پانچ ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی توقع رکھتی ہے۔
سعودی عرب کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے حال ہی میں دورۂ پاکستان کے دوران اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ریاض ریکوڈیک کے کان کنی کے منصوبے میں ابتدائی طور پر ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے اور اس کے لیے بات چیت حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب طویل عرصے سے اتحادی رہے ہیں اور کئی سالوں سے سعودی حکومت پاکستان کی معیشت کو رواں دواں رکھنے میں مدد کے لیے مشکل وقت میں مدد کو سامنے آتی رہی ہے۔
احسن محنتی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے نہ صرف بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے نیا قرض پروگرام کی منظوری میں اپنا کردار ادا کیا تھا بلکہ ریاض کا کردار پاکستان کے ذمے چین کے قرضے بالخصوص توانائی کے سیکٹر میں لیے گئے قرضے واپس کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق معاشی امداد کے بدلے پاکستان نے سعودی عرب کی دفاعی میدان، فوجی تربیت اور ساز و سامان کی تیاری میں بے حد مدد کی ہے۔ جب کہ سفارتی سطح پر تقریباً تمام ہی اہم معاملات پر سعودی حکومت کی کھل کر حمایت کی ہے۔
کیا سعودی سرمایہ کاری سے معیشت بہتر ہو سکتی ہے؟
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے معاشی حالات پر قابو پانے کے لیے دیگر اصلاحات کے ساتھ بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ایسے میں سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
معاشی امور کے ماہر نوید حسن کہتے ہیں اگرچہ گزشتہ ششماہی میں پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں لگ بھگ 46 فی صد اضافہ ہوا ہے لیکن ملک میں امن و امان کی خراب صورتِ حال بہتر بنائے بغیر اس میں خاطر خواہ اضافہ ممکن نہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت حکومت کی تمام تر توجہ سعودی عرب سمیت دیگر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں راغب کرنے پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت اصل مسئلہ پاکستان میں توانائی کے مسائل، انفرا اسٹرکچر کی کمی، حکومتی اجازت ناموں کا مشکل حصول، ہنر مند افراد کی کمی اور پیداواری لاگت زیادہ آنے جیسے مسائل کی وجہ سے یہاں سرمایہ کار آنے سے گھبراتے ہیں۔
نوید حسن کے مطابق کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول اگر سازگار بن جائے تو پہلے مقامی سرمایہ کاروں کو ترغیب ملتی ہے جس کے بعد غیر ملکی سرمایہ کار بھی پیسہ لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے خصوصی سرمایہ کاری کونسل (ایس آئی ایف سی) کا پلیٹ فارم پہلے سے موجود ہے جس میں ملک کے آرمی چیف بھی شامل ہیں۔
خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ خلیجی ریاستوں کے سرمایہ کار پاکستان میں طویل المدتی سرمایہ کاری کے بجائے اعلیٰ پیداوار کی حامل کم رسک والے منافع حاصل کرنے میں دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں۔
فورم