حسینہ واجد کا دورۂ نئی دہلی: 'بھارت، چین کے معاملے پر ہمسایہ ملکوں کی حمایت چاہتا ہے'

بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد چار روزہ دورۂ بھارت پر نئی دہلی میں موجود ہیں۔ اُن کے دورے کو خطے کی صورتِ حال، عالمی کساد بازاری، روس، یوکرین جنگ اور کرونا وبا کے تناظر میں اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔

منگل کو نئی دہلی کے حیدرآباد ہاؤس میں اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے ملاقات کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات کو آگے بڑھانے پر اتفاق کرنے کے علاوہ سات سمجھوتوں پر بھی دستخط کیے۔ تاہم دونوں ملکوں کے درمیان دریائے تیستا کے پانی کی تقسیم کے معاملے پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔

بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان طے پانے والے معاہدوں میں دفاع، تجارت، آبی اشتراک اور سائنس و ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں تعاون شامل ہے۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان مذاکرات میں سیکیورٹی تعاون، روہنگیا پناہ گزینوں کا معاملہ، سرحدی معاملات، منشیات اور انسانی اسمگلنگ جیسے اُمور پر بھی بات چیت ہوئی۔


دونوں ملکوں کے درمیان سب سے اہم مسئلہ دریائے تیستا کے پانیوں کی تقسیم کا تھا۔ لیکن اس پر کوئی مفاہمت نہیں ہو سکی۔ البتہ شیخ حسینہ نے مذاکرات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس میں اس امید کا اظہار کیا کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔

یاد رہے کہ دونوں ملکوں نے جن مفاہمت ناموں پر دستخط کیے ہیں ان میں ایک دریائے کوشیارہ کے پانیوں کی تقسیم کے سلسلے میں بھی ہے۔

نریندر مودی نے مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ گزشتہ سال ہم نے بنگلہ دیش کی آزادی کی 50 ویں سالگرہ منائی ہے۔ ہم نے ’میتری دیوس‘ (یوم دوستی) بھی منایا۔ آنے والے دنوں میں بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات نئی بلندیوں پر پہنچیں گے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کی باہمی تجارت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہم نے انفارمیشن ٹیکنالوجی، خلا اور جوہری شعبوں میں باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق بھارت اور بنگلہ دیش میں مشترک دریاؤں کی تعداد 54 ہے جو کہ دونوں ملکوں کے عوام کے لیے بہت اہم ہیں۔

ان کے مطابق اس وقت بنگلہ دیش بھارت کا سب سے ترقی یافتہ شراکت دار اور خطے میں سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ دونوں ملکوں میں عوام سے عوام کے درمیان رابطوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

اس سے قبل حیدرآباد ہاؤس میں نریندر مودی سے ملاقات کے موقع پر شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ وہ جب بھی یہاں آتی ہیں انہیں خوشی ہوتی ہے۔ کیوں کہ ہم بنگلہ دیش کی آزادی میں بھارت کے تعاون کو یاد کرتے ہیں۔ ہمارے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں اور ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔


شیخ حسینہ کے اس دورے کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے شیخ حسینہ کرونا وبا سے قبل 2019 میں بھارت آئی تھیں۔ جب کہ وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ سال بنگلہ دیش کی آزادی کی 50 ویں سالگرہ پر ڈھاکہ گئے تھے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق چین خطے کے دیگر ملکوں کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش سے بھی اپنے تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ وہ ان ملکوں میں سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔ دورے پر آنے سے قبل شیخ حسینہ نے بھارتی میڈیا ادارے ’اے این آئی‘ کو تفصیلی انٹرویو دیا۔ جب بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش دونوں ملکوں کے باہمی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہتا۔

'بھارت، چین کے معاملے پر ہمسایہ ملکوں سے تعاون چاہتا ہے'

نئی دہلی کے ایک سینئر تجزیہ کار شیخ منظور نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت کے دیگر ہمسایہ ملکوں کی طرح بنگلہ دیش کے بھی چین سے بہت اچھے رشتے ہیں اور وہ مزید آگے بڑھ رہے ہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے معاملے میں ہمسایہ ممالک اس کے مؤقف کی حمایت کریں۔

ان کے بقول بھارت بنگلہ دیش سے بھی اپنے دوستانہ تعلقات کے پیشِ نظر یہی توقع رکھتا ہے۔ لیکن شیخ حسینہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ بنگلہ دیش اس تنازعے میں فریق بننے کے بجائے غیر جانب دار رہنا چاہتا ہے۔

واضح رہے کہ چین نے حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش میں کافی سرمایہ کاری کی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق خطے میں بنگلہ دیش ہی ایک ایسا ملک ہے جس سے بھارت کے دوستانہ اور خوش گوار رشتے ہیں۔ لیکن اب چین بنگلہ دیش میں بھی اپنے اثرات میں اضافہ کرتا جا رہا ہے۔

شیخ منظور کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش سے اپنے گہرے رشتے کے پیشِ نظر بھار ت کے لیے یہ تشویش کی بات ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے ہمسایہ ملکوں میں چین اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرے۔ لیکن بھارت چین کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ ان کے مطابق نیپال میں بھی جو کہ بھار ت کا انتہائی قریبی ملک تھا، چین سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہا ہے۔


دونوں ملکوں کے درمیان روہنگیا پناہ گزینوں کا مسئلہ بھی کافی اہم مگر پیچیدہ ہے۔ شیخ حسینہ نے بھارت آنے سے قبل کہا تھا کہ بنگلہ دیش ایک چھوٹا ملک ہے مگر وہاں 10 لاکھ روہنگیا پناہ گزین ہیں۔ بنگلہ دیش چاہتا ہے کہ بھارت بھی اس بوجھ کا کچھ حصہ اٹھائے۔ دہلی آمد پر جب ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے، وہ بہت کچھ کر سکتا ہے۔

شیخ منظور دوسرے تجزیہ کاروں کی اس رائے سے متفق ہیں کہ بنگلہ دیش کے لیے 10 لاکھ روہنگیا افراد کا بوجھ اٹھانا آسان نہیں ہے۔ ان کے خیال میں اس سلسلے میں حسینہ کی گفتگو کے جواب میں بھارت کے مؤقف کا علم تو نہیں ہو سکا۔ لیکن بھارت بھی اب روہنگیا افراد کو کچھ ریلیف دینے پر غور کر رہا ہے۔ اس سے قبل بھارت روہنگیا افراد کو پناہ گزینوں کے بجائے درانداز قرار دیتے ہوئے، اُنہیں واپس بھیجنے کا کہتا رہا ہے۔

گزشتہ دنوں ہاؤسنگ کے مرکزی وزیر ہر دیپ سنگھ پُری نے اپنی ٹویٹ میں اعلان کیا تھا کہ دہلی میں روہنگیاز کو فلیٹ دیے جائیں گے اور دہلی پولیس ان کو 24 گھنٹے سیکیورٹی فراہم کرے گی۔ اس پر شدت پسند ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد کی جانب سے سخت احتجاج کیاگیا اور اس اعلان کی مذمت کرتے ہوئے مرکزی وزیر سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا حکومت بقول ان کے 'دہشت گردوں' کو فلیٹ کی سہولت دے گی۔

ان کے اس اعلان کے چند گھنٹوں کے اندر ہی مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے ہر دیپ سنگھ پری کے اعلان کی تردید کر دی گئی اور روہنگیاز کو فلیٹ دینے سے انکار کیا گیا۔ اس کے بعد ہردیپ پری نے ایک دوسری ٹویٹ میں وضاحت کی کہ وزارتِ داخلہ جو کہہ رہی ہے وہی حکومت کا باضابطہ مؤقف ہے۔

شیخ منظور کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان بعض معاملات میں اختلافات بھی پیدا ہوئے ہیں۔ خاص طور پر شہریت کے ترمیمی قانون، سی اے اے کے معاملے پر۔ گو کہ شیخ حسینہ نے اسے بھارت کا داخلی معاملہ قرار دیا تھا تاہم یہ بھی کہا تھا کہ بھارت میں لوگ بہت سے مسائل سے دوچار ہیں۔ بھارت کو اپنے یہاں ایسا کچھ نہیں ہونے دینا چاہیے جس سے بنگلہ دیش کی اقلیتوں پر کوئی اثر پڑے۔

اس قانون میں کہا گیا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مذہب کی بنیاد پر مبینہ طور پر ستائے جانے پر بھارت آنے والے اقلیتوں (مسلمانوں کو چھوڑ کر) کو شہریت دی جائے گی۔ بنگلہ دیش نے اس کی تردید کی تھی کہ وہاں سے کوئی ترکِ وطن کرکے بھارت آیا ہے۔ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبد المومن نے ایک بیان میں اظہار ناراضگی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بھارتی رہنما بنگلہ دیش آئیں تو وہ دیکھیں گے کہ یہاں کس طرح کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہے۔

شیخ حسینہ نے دورے کے پہلے روز پیر کو حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ پر حاضری دی اور دعائیں کیں۔ وہ جمعرات کو خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضری دینے کے لیے اجمیر جائیں گی۔