ویب ڈیسک۔ اسرائیلی فوج نے مئی میں الجزیرہ کی ایک معروف صحافی کو قتل کی تحقیقات کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے اتوار کے روز کہا ہے کہ اس کا ’ قوی‘ امکان" ہے کہ وہ کسی فوجی کے ہاتھوں ہلاک ہوئی ہوں، ۔ لیکن یہ بھی کہا ہے کہ وہ فائرنگ حادثاتی تھی اور کسی کو سزا نہیں دی جائے گی۔
شیریں ابو عاقلہ مئی میں مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کے ایک چھاپہ کی کوریج کے دوران ہلاک ہو گئی تھیں ۔ فلسطینیوں نے اس قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کیا تھا۔ اسرائیل نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئی ہوں ،لیکن بعد میں کہا کہ ہو سکتا ہے کہ کسی فوجی نے فائرنگ کے تبادلے کے دوران غلطی سے انہیں نشانہ بنایا ہو۔
فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیریں ابو عاقلہ نے دو دہائیوں تک سیٹلائٹ چینل کے لیے مغربی کنارے کی کوریج کی تھی اور وہ پوری عرب دنیا میں مشہور تھیں ۔
صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے ایک سینئر فوجی اہلکار نے کہا کہ فوج حتمی طور پر اس بات کا تعین نہیں کر سکی کہ فائرنگ کہاں سے ہوئی ، انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اسی علاقے میں فلسطینی بندوق بردار موجود ہوں جہاں اسرائیلی فوجی تھا۔ لیکن کہا کہ "بہت زیادہ امکان " ہے کہ فوجی کے ہاتھوں صحافی کو گولی لگی ہو اورایسا غلطی سے ہوا ہو۔
اہلکار نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ عینی شاہدین کے بیانات اور ویڈیوز میں کیوں علاقے میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں دکھائی نہیں دیتی ہیں، اور یہ کہ جب شیریں ابو عاقلہ کو نشانہ بنایا گیا اس وقت تک اس علاقے میں گولہ باری نہیں ہو رہی تھی ۔اس وقت اور ایک اور رپورٹر زخمی ہوگیا تھا۔
مئی میں مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی چھاپوں کی کوریج کے دوران ہلاکت کے وقت شیریں نے ہیلمٹ اور ایک جیکٹ پہن رکھی تھی جس پر پریس لکھا ہوا تھا۔
فوجی بریفنگ کی ہدایات کے تحت نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے اہلکار نے کہا، "فوجی نے اس کی غلط شناخت کی۔" "حقیقی وقت میں اس کی رپورٹیں... بالکل غلط شناخت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔"
تحقیقات کے نتائج، جن کا اعلان قتل کے تقریباً چار ماہ بعد کیا گیا، بڑی حد تک ان متعددغیر جانبدار تحقیقات سے مطابقت رکھتی ہیں، جو بہت پہلے مکمل کی گئی تھیں۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک پیچیدہ لڑائی کے دوران ماری گئی تھیں اور گولی کے صرف فرانزک تجزیے سے ہی اس بات کی تصدیق ہو سکتی ہے کہ ان پر اسرائیلی فوجی نے فائر کیا تھا یا کسی فلسطینی عسکریت پسند نے۔ تاہم، گزشتہ جولائی میں امریکی قیادت میں گولی کا تجزیہ غیر نتیجہ خیز تھا کیونکہ تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ گولی کو بری طرح نقصان پہنچا تھا۔
شیریں کے اہل خانہ نے تحقیقات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے قتل کی "حقیقت کو چھپانے اور ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کی"۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا، "ہمارا خاندان اس نتیجے سے حیران نہیں ہے کیونکہ یہ کسی کے لیے بھی واضح ہے کہ اسرائیلی جنگی مجرم اپنے جرائم کی تفتیش نہیں کر سکتے۔ تاہم، ہم شدید دکھی اور مایوس ہیں۔"
خاندان نےغیر جانبدار امریکی تحقیقات اور بین الاقوامی جرائم کی عدالت سے تحقیقات کے مطالبے کا بھی اعادہ کیا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی فائرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں کی اسرائیلی تحقیقات اکثر مہینوں یا سالوں تک خاموشی سے بند ہونے سے پہلے ہی التوا کا شکار رہتی ہیں اور فوجیوں کو شاذ و نادر ہی جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے شیریں کے قتل کی تحقیقات ، گواہوں کے بیانات کی تائید کرتی ہے کہ وہ اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں ماری گئی تھیں۔سی این این ، نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کی بعد کی تحقیقات اسی طرح کے نتائج پر پہنچیں، جیسا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ کے دفتر کی مانیٹرنگ میں کہا گیا تھا۔
شیریں نے دو دہائی قبل دوسری فلسطینی تحریک، یا اسرائیلی حکمرانی کے خلاف بغاوت کے دوران شہرت حاصل کی ۔ انہوں نے عرب دنیا کے ناظرین کے لیے اسرائیلی فوجی حکمرانی کے تحت زندگی کی تلخ حقیقتوں کو دستاویزی شکل دی ، جو اب چھٹے عشرے میں داخل ہو گئی ہے ۔
اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا تھااور وہاں بستیاں تعمیر کیں جہاں تقریباً 30 لاکھ فلسطینیوں کے ساتھ تقریباً پانچ لاکھ اسرائیلی رہتے ہیں۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ یہ علاقہ ان کی مستقبل کی ریاست کا اہم حصہ بنے۔
اس خبر کا مواد اسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔