پاکستان کے سب سے بڑے کمرشل بینک، حبیب بینک لمیٹڈ کو ایک امریکی عدالت میں دہشت گرد تنظیموں اور اس سے منسلک گروپوں کی مدد کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ تاہم حبیب بینک کا کہنا ہے کہ اس پر عائد کئے گئے الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔
نیویارک ڈسٹرکٹ کورٹ نے اس مقدمے میں اگرچہ بینک پر دہشت گردی کو پروان چڑھانے اور اس میں تعاون کرنے کرنے کا براہِ راست الزام عائد نہیں کیا۔ لیکن امریکی عدالت کا کہنا ہے کہ بینک نے القاعدہ اور اس سے منسلک بعض صارفین کو سروسز فراہم کیں جن سے دہشت گردوں نے استفادہ کیا۔
عدالت کے مطابق بینک کے اس عمل سے دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو تقویت ملی۔ ایسی دہشت گرد تنظیموں میں القاعدہ اور اس سے منسلک تنظیمیں، جن میں لشکر طیبہ، جیش محمد، الرحمت ٹرسٹ، افغان اور پاکستانی طالبان، حقانی نیٹ ورک اور دیگر ادارے بھی شامل ہیں۔
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ بینک نے جان بوجھ کر ایسے اقدامات کیے جس سے ایسے صارفین کو ان پر عائد بین الاقوامی پابندیاں توڑنے میں مدد ملی۔ ایسا کرنے سے حبیب بینک ایسی تنظیموں کی جانب سے دہشت گردانہ حملے کرنے کی سازش میں شریک ہو گیا۔ بینک کے خلاف الزامات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس طرح کی معاونت سے دہشت گردوں نے 370 افراد ہلاک یا زخمی کیے۔
"بینک پر عائد الزامات میں کوئی صداقت نہیں"
دوسری جانب حبیب بینک کی کمپنی سیکریٹری نیلوفر حمید کی جانب سے پاکستان اسٹاک مارکیٹ کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ امریکی عدالت میں ان الزامات کے تحت درج شکایات دو سال پرانی ہیں۔
سیکریٹری کے مطابق ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں، بینک پر عائد کی گئیں شکایات بے بنیاد ہیں اور بینک عدالت میں ان الزامات کے خلاف بھرپور طریقے سے دفاع کررہا ہے۔
نیلوفر حمید نے مزید کہا ہے کہ حبیب بینک کی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے اقدامات کو دنیا بھر کے ریگولیٹرز نے سراہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ عدالت پہلے ہی بینک کو بنیادی ذمہ داریوں کے دعوے سے بری کر چکی ہے جب کہ ثانوی ذمے داریوں کے دعوے کو بھی مسترد کرنے کے لیے ابھی قانونی کارروائی کا عمل باقی ہے۔ اس بارے میں عدالت نے اب تک کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حبیب بینک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بینک نے 2018 میں بین الاقوامی معیار پر عمل کرتے ہوئے بزنس ٹرانسفارمیشن پروگرام شروع کیا ہے۔ اس حوالے سے مینجمنٹ اور وسائل میں کثیر سرمایہ کاری بھی کی گئی ہے تاکہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے پروٹوکولز پر سختی سے عمل درآمد ممکن بنایا جاسکے۔
اس خبر کے سامنے آنے کے بعد پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں حبیب بینک کے حصص میں زبردست کمی دیکھنے میں آئی ہے اور جمعے کو بھی فی شیئر 5 روپے 65 پیسے یعنی تقریبا ساڑھے سات فی صد کمی کے بعد 69 روپے 71 پیسے پر بند ہوا۔
اس سے قبل 2017 میں بھی نیو یارک کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ آف فنانشل سروسز نے اینٹی منی لانڈرنگ پروٹوکول کو پورا نہ کرنے پر حبیب بینک کو 62 کروڑ 96 لاکھ ڈالرکا بھاری جرمانہ عائد کیا تھا۔ ریگولیٹر کے مطابق بینک نے منی لانڈرنگ سے بچاؤکے لیے 52 نکات پر عمل درآمد نہیں کیا تھا۔ تاہم تصفیے کے بعد بینک کو 22 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا جرمانہ بھرنا پڑا اور نیویارک میں بینک کی برانچ کو بھی بند کرنا پڑاتھا۔
حبیب بینک لمیٹڈ کی پیرنٹ کمپنی آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈویلپمنٹ ہے جس کا رجسٹرڈ دفتر جنیوا میں ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے سرکاری بینک نیشنل بینک آف پاکستان نے افغانستان میں امریکی شہریوں کے خلاف دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزامات کے خلاف مقدمہ جیتا تھا۔ امریکی عدالت نے ایسے تمام الزمات سے بینک کو بری قرار دیا تھا۔
نیشنل بینک پر الزام تھا کہ اس نے القاعدہ سمیت کئی دہشت گرد گروپوں کو مالی معاونت اور بینکنگ سروس کی سہولت فراہم کی تھی۔ مقدمہ جیتنے سے نیشنل بینک امریکی حکومت کی جانب سے 20 اعشاریہ 4 ملین ڈالر جرمانے سے بچ گیا۔
نیویارک ڈپارٹمنٹ آف فنانشل سروسز کی جانب سے بھی 35 ملین ڈالر کا الگ جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ نیویارک فنانشل سروسز نے الزام عائد کیا تھا کہ بینک کے اینٹی منی لانڈرنگ سسٹم، رقوم کے تبادلے کی مانیٹرنگ سمیت دیگر معاملات میں خامیاں موجود ہیں۔تاہم عدالت نے ان تمام الزامات کو رد کردیا تھا۔