رپورٹر ڈائری: سیلاب میں بھی چوری کا ڈر، گھر کیسے خالی چھوڑیں؟

فائل فوٹو

پاکستان میں سیلاب سے تباہ کاریاں بڑھتی جا رہی ہیں اور خیبر پختونخوا میں دریائے کابل میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے ہزاروں افراد اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

صوبے کے شہر نوشہرہ سے باہر بننے والا کیمپ اگرچہ تین ہزار لوگوں کے لیے تھا البتہ اب تک اس میں 10 ہزار کے قریب متاثرین پہنچ چکے ہیں اور مزیدلوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

سیلاب کی صورتِ حال پر رپورٹنگ کے لیے وائس آف امریکہ کی ٹیم کے ہمراہ نوشہرہ پہنچے، تو پہلے سے ہی موٹر وے پر جانے کے لیے موبائل فون پر پبلک سروس کے پیغامات موجود تھے کہ برہان سے نوشہرہ تک سیلاب کا خطرہ ہے۔ راستہ میں کسی جگہ سیلاب تو نہ ملا البتہ دریائے سندھ کا پل عبور کرتے ہوئے خوف محسوس ہوا، جہاں دریا کی تند و تیز لہریں کناروں سے ٹکرا رہی تھیں جب کہ دریا میں سیلاب اونچے درجے پر تھا۔

نوشہرہ پہنچے تو سب سے پہلے نوشہرہ کلاں کے علاقے کے ساتھ اس پل پر گئے جو نوشہرہ شہر اور رسالپور کو ملاتا ہے۔

اس پل کے نیچے دریائے کابل میں اس وقت تین لاکھ کیوسک سے زائد کا سیلابی ریلا بہہ رہا تھا۔ پل کے ایک کنارے کی طرف بجلی کا ایک بڑا پول جو 11 ہزار کے وی اے کی بجلی لائن کو سنبھالتا تھا، منہ زور پانی کے آگے بے بس ہوکر گرنے کے قریب تھا۔ اسے گرنے سے بچانے کے لیے پل کے اوپر سے ایک اور پول کا سہارا دیا گیا تھا۔

پل کے کنارے پر گاڑی روکنے لگے تو پولیس اہلکار نے منع کیا کہ اگر پل ٹوٹ گیا تو گاڑی دریا میں ہوگی، جس پر خوف زدہ ہو کر گاڑی کافی آگے لےگئے البتہ اگلے ہی لمحے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ اسی پل کے اوپر سے 22 وہیلر لوڈڈ ٹرک گزر رہے ہیں اور پولیس اطمینان سے ان ٹرکوں کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

بہرحال اپنی گاڑی کو محفوظ محسوس کرنے پر شکر ادا کیا اور کام میں مصروف ہوگئے۔

اس پل پر پولیس اور بعد میں فوج کے اہلکار بھی تعینات دیکھے، جو عام لوگوں کو وہاں کھڑے ہونے سے روک رہے تھے البتہ کوئی بھی چنگھاڑتے ہوئے دریا کے ساتھ سیلفی لیے بغیر جانے کو تیار نہ تھا۔

یہاں رکن صوبائی اسمبلی اختیار ولی سے ملاقات ہوئی، جنہوں نے تشویش ناک صورتِ حال بتائی کہ نوشہرہ کلاں اور اس سے قریبی علاقوں میں کئی مقامات پر آٹھ آٹھ فٹ پانی ابھی بھی گھروں کے اندر موجود ہے۔

اس پر فوری طور پردریائے کابل کے ساتھ واقع علاقے نوشہرہ کلاں پہنچے، جہاں ابتدا میں تو پانی کم تھا لیکن رفتہ رفتہ اس میں اضافہ ہونے لگا اور ایک مقام پر پہنچ کر گاڑی کھڑی کی۔ لانگ بوٹ پہنے اور آگے پہنچ گئے۔

یہاں کئی لوگ اپنے گھروں کی چھتوں پر موجود تھے۔ جبران فلک نامی نوجوان سے اس کی وجہ پوچھی کہ اتنے خطرہ میں یہاں کیا کر رہے ہیں؟

جبران فلک جو پریشانی کے عالم میں وہاں موجود تھے، سوال سن کر کہنے لگے کہ ’’پہلے جب بھی یہاں سیلابی پانی آتا تھا، ہم سب علاقہ چھوڑ دیتے تھے البتہ پچھلی بار جب سیلاب آیا تھا اور ہم گھروں کو واپس آئے تو کئی گھروں سے قیمتی سامان چور نکال کر لے جا چکے تھے۔‘‘

موجودہ سیلاب میں گھر میں اپنی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بار عورتوں اور بچوں کو تو علاقے سے نکال لیا ہے البتہ ہر گھر پر ایک نہ ایک مرد حفاظت کے لیے موجود ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس علاقے کی بجلی دو روز سے بند ہے۔ بجلی کی بندش کی وجہ سے گھروں میں استعمال کا پانی بھی موجود نہیں، ہر طرف گندا پانی کھڑا ہے جس سے تعفن پھیلا رہا تھا۔

اس علاقے میں تین تین فٹ سے زائد پانی تک اندر جانے کے بعد واپسی کی راہ لی اور سب سے بڑے امدادی کیمپ ڈگری کالج کھنڈر پہنچ گئے۔

اس کالج کے باہر ہی جو اچھی چیز دیکھنے کو ملی وہ یہ تھی کہ مختلف رفاحی تنظیموں کے رضا کار گاڑیاں بھر بھر کر ضرورت کا سامان لارہے تھے۔یہ الگ بات ہے کہ ایسی آفت کے بعد منظم طریقے سے امداد لینے کے بجائے تمام متاثرین ان گاڑیوں ٹوٹ پڑتے تھے جب کہ بے ہنگم انداز میں کھانا اور پانی لینے کے مناظر پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں، جیسے اس سے قبل زلزلے کے بعد بھی ایسے مناظر دیکھے تھے۔

اس کیمپ کے اندر پہنچے تو پی ڈی ایم اے کے لوگوں کے ساتھ لگے ٹینٹ سے اندازہ ہوا کہ حکومت ہی اس کیمپ کو چلا رہی ہے۔ کیمپ کے اندر رضا کار، جن میں مذہبی فلاحی تنظیمیں زیادہ نظر آ رہی تھیں،کہیں دیگوں کے ساتھ ، تو کہیں لنچ باکس لیے موجود تھے، جب کہ بعض گاڑیاں منرل واٹر کے ساتھ اندر آ رہی تھیں، یہ سامان متاثرین میں تقسیم کیا جا رہا تھا۔

خیموں کے اندر خواتین موجود تھیں، جنہیں نئے میٹرس بھی فراہم کیے گئے تھے،جن لوگوں کو کیمپ اور میٹرس نہیں ملے تھے، وہ حکومت کو کوس رہے تھے۔

ایک معصوم سی بچی سمیرا سے جب یہاں مشکلات کا پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے کل سے بخار ہے لیکن کوئی دوائی نہیں مل رہی۔‘‘

جب اس حوالے سے کیمپ کی انتظامیہ سے استفسار کیا تو انتظامیہ نے فوری طور پر ڈاکٹر طلب کیے اور اس بچی کا معائنہ کرکے دوا دی گئی۔

ایک خاتون کفایت بی بی نےبتایا کہ ’’یہاں دو روز سے آئے ہوئے ہیں۔ میرا گھر پتا نہیں کس حال میں ہوگا اور کتنا پانی آیا ہوگا؟ ‘‘ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھ میں آنسو آ گئے، جنہیں انہوں نے اپنی چادر سے پونچھ لیا۔

اسی دوران اسسٹنٹ کمشنر قرة العین وزیر سے بھی سامنا ہوا۔ یہ وہی اسسٹنٹ کمشنر ہیں جن کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا ہے جس کو سہارے کے طور پر وہ استعمال کر رہی ہیں اور نوشہرہ میں گھر گھر جا کر اس کے مکینوں کو سیلاب کی آمد سے قبل گھر خالی کرنے کا کہہ رہی ہیں۔

پانی کب تک یہ تباہی پھیلا سکتا ہے؟ اس بارے میں اسسٹنٹ کمشنر قرۃ العین وزیر نے کہا کہ ابھی سوات کی طرف سے ایک لاکھ 20 ہزار کیوسک پانی کا ریلا آنے کا بتایا گیا ہے۔ پہلے سے خالی کرائے گئے علاقوں کے بعد مزید علاقوں سے بھی نقل مکانی کرانی پڑے گی ۔

سوشل میڈیا پر لوگوں کو ڈانٹنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے حوالے سےانہوں نے کہا کہ میری مجبوری تھی، مجھے ان لوگوں کی جان بچانے کے لیے گھر خالی کرانے تھے۔ اگر نہ ڈانٹتی تو کئی جانیں جا سکتی تھیں۔ نوشہرہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اب تک ایک بھی ہلاکت یا کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع سامنے نہیں آئی۔

اس کیمپ میں متاثرین کی مدد کےلیے حکومت کے ساتھ ساتھ بہت سی فلاحی تنظیموں کے رضاکار حصہ ڈال رہی ہیں اور امداد تقسیم کررہے ہیں۔

امدادی کاموں میں مصروف کئی لوگ اپنی شناخت بھی نہیں چاہتے، اس وجہ سے جب ایک کھانا تقسیم کرنے والے شخص کی میرے کیمرا مین سلمان قاضی نے ویڈیو بنائی، تو قریب آکر کہنے لگے کہ بھائی میرا شاٹ نہ لگانا۔میں اپنی نیکی کسی کو دکھانا نہیں چاہتا۔

اس شخص کی بات سن کر وہ تمام رہنما بہت یاد آئے جو کیمروں کے سامنے آٹے کا تھیلا دے کر لمحوں میں رفو چکر ہو جاتے ہیں۔