سندھ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بیوہ اور طلاق یافتہ ہندو خواتین کو دوسری شادی کا حق دیئے جانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ فی الوقت ہندو خاتون کو شوہر کی وفات کے بعد تنہا زندگی گزارنا پڑتی ہے، خواہ وہ چھوٹی عمر میں ہی بیوہ ہوگئی ہو ۔
پاکستان ہندو کونسل کی رکن منیجنگ کمیٹی ، ماہر قانون، ایڈوکیٹ روپ مالا سنگھ نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں ترمیمی بل پیش کئے جانے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہندو ازم میں طلاق کا کوئی تصور نہیں، لیکن بعض صورتوں میں دوسری شادی لڑکیوں کے لئے دوسرے جنم سے کم نہیں۔ خوشی کی بات ہے اگر ایسا ہو جائے تو، کم از کم ایسی لڑکیوں کو اس قانون سے ضرور راحت ملے گی جو کسی بھی حادثے کے سبب شادی کے کچھ ہی عرصے بعد بیوہ ہو جاتی ہیں ۔
ادھر سندھ ہندو میرج ایکٹ میں قانونی ترمیم کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے پارلیمانی لیڈ ر نند کمارکا کہنا ہے کہ’ ہم صدیوں پرانے اور دقیانوسی رواج کو بدلنا چاہتے ہیں، اسی لئے قانون میں ترمیم کرکے ہندو بیوہ کو چھ مہینے کے بعد دوبارہ شادی کرنے کا حق دلانا چاہتے ہیں۔‘
نند کمار کے مطابق’ ہندو برادری میں عورت کو شوہر کے انتقال کے بعد ایک سال تک گھرسے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی ،دوبارہ شادی کا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ سب انتہائی غلط ہے۔ ہم صدیوں سے آ رہے ان غلط رسم ورواج سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اپریل 2016میں سندھ اسمبلی نے ہندو میرج ایکٹ بل منظورکیا تھا ۔اس بل سے پہلے ہندوبرادری کی شادی رجسٹرکرانے کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔
سندھ اسمبلی میں پیش کردہ قانونی ترمیم کے مطابق ہندو خواتین طلاق لینے کے بعد دوسری شادی کر سکیں گی ۔اگر شادی ڈگری کے ذریعے ختم کردی جائے تو یہ جائز ہو گا اور ایسی صورت میں چھ مہینے کے وقفے کے بعد حتمی فیصلے کے تحت فریقین دوسری شادی کے لئے آزاد ہوں گے۔ بل کے تحت طلاق ہونے پر باپ، بچوں کے مالی اخراجات اٹھائے گا۔
گزشتہ کچھ سالوں کے دوران ہندو برادری میں شادیوں سے متعلق مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور قانون نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا استحصال کیا گیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فیصلے پنچایت اور جرگوں کے ذریعے کئے جانے لگے جن میں خواتین اوربچوں کے حقوق اورگزر بسر کے معاملات کواہمیت نہیں دی گئی۔
وائس آف امریکہ کے ایک سوال پر روپ مالا سنگھ نے بتایا ’’یہ سوال اہم ہے کہ شہری یا ماڈرن اور تعلیم یافتہ مر دو خواتین تو بیوہ یا طلاق یافتہ لڑکی کی شادی کے قانون کو آسانی سے تسلیم کرلیں گے لیکن دیہی علاقوں کے ناخواندہ مرد شاید اس قانون کی مخالفت کریں لیکن اس کے لئے ایک تو حکومت کی جانب سے آگاہی بہت ضروری ہے دوسرا ترمیمی بل باقاعدہ قانون بنے گا تو ا س کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے سخت سزائیں بھی ہوں گی اس لئے شاید ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرانے کی ضرورت پڑے۔‘‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ’ یہ قانون بنیادی طور پر سب کے لئے سود مند ہوگا۔ اس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ہندو ازم میں طلاق اور دوسری شادی کا کوئی تصور نہیں ۔ خواتین زندگی میں صرف بار ایک شادی کر سکتی ہیں۔ اگر کوئی لڑکی شادی کے کچھ ہی دن بعد بیوہ ہو جائے تو اس کے لئے معاشرے میں تنہا زندگی گزارنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہو جاتا ہے جبکہ دوسری شادی کی بدولت اسے شیلٹر اور تحفظ مل سکے گا۔ اس لئے میں سمجھتی ہوں کہ اگر ترمیمی بل یا قانون سے خواتین کی زندگی اور معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی آتی ہے تو یہ قانون جلد از جلد بنے۔ ‘