امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں ری پبلکنز نے انتہائی کم ووٹوں کی برتری سے حکومت کے قرضوں کی حد میں 15 کھرب ڈالر تک اضافے اور حکومت کے بڑے اخراجات کم کرنے کا بل منظور کرا لیا ہے۔
اس بل کی منظوری کو ایوان نمائندگان کے ری پبلکن اسپیکر کیون میکارتھی کی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیوں کہ انہوں نے صدر جو بائیڈن کو کہا تھا کہ وہ اس معاملے پر مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔
جو بائیڈن پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ ری پبلکن پارٹی کے پیکیج کو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ویٹو کر دیں گے۔
دوسری جانب سینیٹ میں ڈیموکریٹس کو عددی برتری حاصل ہونے کی وجہ سے یہ بل اس ایوان سے منظور ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ اس بل پر کسی قسم کے مذاکرات سے انکار کرتی رہی ہے کیوں کہ وائٹ ہاؤس کا مؤقف ہے کہ قرضوں کی بالائی حد مقرر نہیں کرنی چاہیے تاکہ امریکہ اپنے اخراجات کی ادائیگی کو ممکن بنا سکے۔
امریکہ کے ایوان نمائندگان میں ری پبلکن ارکان کو برتری حاصل ہے جب کہ سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی سینیٹرز کی تعداد زیادہ ہونے پر سینیٹ پر بر سر اقتدار پارٹی کا کنٹرول ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بدھ کو اس بل پر ایوان نمائندگان میں رائے شماری ہوئی تو اس کے حق میں 217 ووٹ آئے جب کہ ایوان کے 215 ارکان نے اس کی مخالفت کی۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق بل منظور ہونے کے بعد ایوان نمائندگان کے اسپیکر میکارتھی کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب صدر مزید اس معاملے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
دوسری جانب بدھ کو صدر جو بائیڈن نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ میکارتھی سے ملاقات کرنے کے لیے تیار ہیں البتہ انہوں نے قرضوں کی حد پر بات نہ کرنے کا عندیہ دیا تھا ۔
واضح رہے کہ اس وقت امریکہ کی حکومت پر 310 کھرب ڈالر واجب الادا ہیں اور حکومت قرضوں کے حصول کی بالائی حد تک پہنچ چکی ہے۔ حکومت کو اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے مزید قرضے لینے کی ضرورت پیش آئے گی۔
امریکہ کا محکمۂ خزانہ ادائیگیوں کے لیے غیر معمولی اقدامات میں مصروف ہے۔ البتہ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے موسم گرما تک حکومت کو ادائیگیوں میں مشکلات پیش آئیں گی۔
بدھ کو ایوانِ نمائندگان میں ووٹنگ کے دوران چار ری پبلکن ارکان نے اس بل کے حق میں ووٹ نہیں دیا جب کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے تمام ارکان نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔