جو لوگ 11 ستمبر 2001 سے پہلے فضائی سفر کرتے رہے ہیں وہ بتا سکتے ہیں کہ اس دور کے مقابلے میں یہ سفر آج کتنا مختلف ہو چکا ہے۔
نائن الیون حملوں سے قبل بھی سیکیورٹی کے لیے اقدامات ہوتے تھے اور سامان کی تلاشی وغیرہ بھی لی جاتی تھی۔ لیکن ان انتظامات کی نوعیت وہ نہیں تھی جس کا آج سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نوے کی دہائی میں مسافروں اور ان کے اہل خانہ کو ایئرپورٹ میں کافی اندر تک آنے کی اجازت ہوتی تھی۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہوائی اڈوں پر مسافروں کو کم سے کم اس صورتِ حال اور دباؤ کا سامنا پہلے نہیں ہوتا تھا جو آج فضائی سفر کا معمول بن گیا ہے۔
فضائی سفر اور ایئرپورٹ پر سیکیورٹی کے انتظامات میں 11 ستمبر 2001 کو چار طیاروں کی ہائی جیکنگ اور امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر، پینٹا گان اور پینسلوینیا میں طیارہ تباہ ہونے کے سانحات کے بعد بہت سی تبدیلیاں آئیں۔
نائیون الیون کو امریکہ کی سرزمین پر تاریخ کی بدترین دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔ ان واقعات کے بعد ایسے کسی سانحے کی روک تھام کے لیے دنیا بھر پر ایئرپورٹس پر سیکیورٹی کے طریقے اس قدر تبدیل ہوگئے کہ بعض مرتبہ یہ ذہنی الجھن کا باعث بنتے ہیں۔
حفاظتی انتظامات میں آنے والی ان تبدیلیوں کے باعث ایئرلائن کی صنعت کی بھی تشکیل نو ہوئی۔
'فضائی سفر ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو گیا'
نائن الیون حملوں کے دو روز بعد اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش نے ایک قانون پر دستخط کیے جس کے تحت ’ٹرانسپورٹیشن سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن‘ کا قیام عمل میں آیا اور وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام ایئرپورٹس پر سیکیورٹی اور اسکریننگ کی ذمے داری اس ادارے کو سونپ دی گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے قبل سیکیورٹی کے لیے ایئرپورٹس کی انتظامیہ نجی کمپنیوں کی خدمات حاصل کرتی تھی۔
اس قانون کی منظوری کے بعد تلاشی کے بعد مسافروں کے سامان کی دوبارہ اسکریننگ، کاک پٹ کے دروازوں کی جانچ اور پروازوں پر مزید ایئر مارشلز کی تعیناتی جیسے اقدامات لازمی قرار دیے گئے۔
فیڈرل ایئر مارشل سروس 'ٹی ایس اے' کے ماتحت کام کرنے والا ایک قانون نافذ کرنے والا ادارہ ہے۔ اس کے اہل کاروں کو فیڈرل ایئر مارشل کہا جاتا ہے اور ان کی ذمے داری کمرشل پروازوں پر کسی ممکنہ دہشت گردی کے واقعات یا دیگر جرائم کو روکنا اور پرواز کی سیکیورٹی یقینی بنانا ہوتا ہے۔
نئے خدشات اور پرائیویسی سے متعلق تشویش
سیکیورٹی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں مسافروں کو اپنے بیلٹ اتارنے اور سامان سے بعض اشیا نکالنے کا کہا جانے لگا۔
کوئی بھی ایسی شے جو ہتھیار کے طور پر استعمال ہوسکتی ہو اسے پرواز پر لے جانا ممنوع کردیا گیا۔ نائن الیون کے ہائی جیکرز نے طیارہ اغوا کرنے لیے بوکس کٹر کا بھی استعمال کیا تھا۔
دسمبر 2001 میں رچرڈ ریڈ نامی برطانوی شہری نے پیرس سے میامی جانے والی پرواز پر اپنے جوتوں کے اندر دھماکہ خیز مواد چھپا کر طیارہ تباہ کرنے کی کوشش کی جو کام یاب نہیں ہو سکی تھی۔ اس واقعے کے بعد سے ایئرپورٹ کے سیکیورٹی کے چیک پوائنٹس پر تلاشی کے لیے مسافروں کے جوتے اتروائے جانے لگے۔
سیکیورٹی کے لیے جوں جوں پابندیوں میں اضافہ ہوتا گیا چیک پوائنٹس پر لگنے والی قطاریں بھی طویل ہوتی گئیں۔ اس کی وجہ سے مسافروں کے لیے پرواز کی روانگی کے وقت سے گھنٹوں پہلے ایئرپورٹ پہنچنے کی زحمت کا آغاز ہوا۔
بہت سے مسافروں کے لیے کئی قواعد معمہ ثابت ہوئے۔ مثلاً مائع شے ساتھ رکھنے کی اجازت ہو گی یا نہیں۔ کیوں کہ ممنوع مائع میں ایسی اشیا بھی شامل ہوتی ہیں جن سے دھماکہ کیا جا سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے بات کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے والے شہری رونالڈ برگز نے کہا کہ نائن الیون کے بعد سفر میں کئی الجھنیں بڑھ گئیں۔
برگز کرونا وبا سے قبل تواتر سے ہوائی سفر کرتے تھے۔ وہ نائن الیون کے واقعات سے قبل بھی سفر کا تجربہ رکھتے ہیں اور ان کے مطابق وقت کے ساتھ بڑھنے والی پابندیوں نے انہیں بہت کچھ سکھا دیا ہے۔
برگز کا کہنا ہے کہ ابتدائی تلاشی میں اب انہوں نے بہت سی الجھنوں کا حل نکال لیا ہے۔ اب وہ سفر کے دوران پلاسٹ کا بیلٹ استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے وقت بچ جاتا ہے۔
لیکن رونلڈ برگز کے مطابق صرف ایک واقعے کو بنیاد بنا کر سب کے جوتے اتروانا کچھ زیادہ ہی سخت اقدام معلوم ہوتا ہے۔
نائن الیون کے بعد تلاشی میں بڑھتی ہوئی سختی کے بعد ’ٹرسٹڈ ٹریولر پروگرامز‘ شروع ہوئے۔ ٹی ایس اے کے ایسے کسی پروگرام کے تحت لوگ فیس ادا کرنے کے ساتھ اپنے بارے میں مخصوص معلومات فراہم کرتے ہیں۔ جس کے بعد انہیں چیک پوائٹس پر جوتے، جیکٹ وغیرہ اتارنے یا لیپ ٹاپ بیگ سے نکالنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
سہولت مگر پرائیویسی کی قیمت پر؟
اس مقصد کے لیے ’پری چیک‘ پروگرام کی ایپلی کیشن پر لوگوں سے ان کی بنیادی معلومات، پس منظر، پتا وغیرہ معلوم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی انگلیوں کے نشان اور مجرمانہ ریکارڈ چیک کرنے کی اجازت بھی لی جاتی ہے۔
نجی معلومات کے تحفظ کے حامیوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ ایئرپورٹ کی سیکیورٹی پر مامور ٹرانسپورٹیشن سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن (ٹی ایس اے) نے مسافروں کی سوشل میڈیا پوسٹنگ کا جائزہ لینے کی بھی تجویز دی تھی لیکن بعد میں یہ تجویز واپس لے لی گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کے علاوہ مسافروں کے بارے میں میڈیا رپورٹس، لوکیشن ڈیٹا اور ڈیٹا فراہم کرنے والی کمپنیوں سے درخواست گزاروں کے اخراجات وغیرہ کی تفصیلات حاصل کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی تھی۔
انفرادی حقوق اور آزادیوں کے دفاع کے لیے کام کرنے والی تنطیم امریکن سول لبرٹی یونین سے تعلق رکھنے والے پرائیویسی امور کے ماہر جے سٹینلے کے مطابق یہ بالکل غیر واضح ہے کہ ان معلومات کا فضائی سیکیورٹی سے کیا تعلق ہے۔
پری چیک پروگرام کے حوالے سے تحفظات
ٹی ایس اے کے ’پری چیک‘ پروگرام کے تحت اب تک ایک کروڑ سے زائد افراد رجسٹریشن کرا چکے ہیں۔ ٹی ایس اے یہ تعداد ڈھائی کروڑ تک لے جانا چاہتی ہے۔
ٹی ایس اے زیادہ سے زیادہ رجسٹریشن اس لیے بڑھانا چاہتی ہے کہ اس کے افسران ایسے مسافروں پر زیادہ توجہ دے سکیں جو زیادہ خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ نائن الیون کی 20 ویں برسی کے ساتھ ہی ٹی ایس اے نے ’پری چیک‘ کا دائرہ وسیع کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی نجی معلومات کی رازداری کے حامی اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں مسافروں کی نجی معلومات تک رسائی سے متعلق خطرات میں اضافہ ہو گا۔
ٹی ایس اے کے اقدامات سے متعلق امریکہ میں ڈیجیٹل رائٹس کے دفاع کرنے والی تنظیم الیکٹرونک فرنٹیئر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر برائے فیڈرل افئیرز کا کہنا ہے کہ حکام اپنی آسانی تو دیکھ رہے ہیں لیکن پرائیوسی اور سیکیورٹی کے پہلو کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
’حفاظت کی قیمت تو چکانا ہو گی‘
موسمِ گرما میں ٹی ایس اے کے چیک پوائنٹس سے روزانہ 20 لاکھ افراد گزرتے ہیں۔ تعطیلات اور ہفتے کے آخر میں ٹی ایس اے کے عملے کو کام کے دباؤ کا سامنا ہوتا ہے۔
عام طور پر جب مسافروں کا زیادہ ہجوم نہ بھی ہو تو ٹی ایس اے کے عملے کا رویہ دوستانہ نہ ہونے کی شکایات عام ہیں۔ لیکن زیادہ تر مسافر اسکریننگ میں برتی جانے والی سختی اور اس کے باعث ہونے والی پریشانی کو سیکیورٹی کی قیمت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔
آرکنسا سے تعلق رکھنے والی اسکول کی استاد پاؤلا گیتھنگز کا کہنا ہے کہ سفر مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔
گیتھنگز کو کام کے سلسلے میں قطر اور اس کے بعد کینیا کا سفر کرنا ہے۔ وہ سفر میں مشکلات کی بڑی وجہ سیکیورٹی اقدامات کے بجائے وبا کو قرار دیتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹی ایس اے اور ایئرپورٹ سیکیورٹی کا عملہ ہمارے تحفظ کے لیے ہیں۔ جب بھی مجھ سے کوئی سوال کرتا ہے تو مجھے اس کی کوئی نہ کوئی وجہ نظر آتی ہے۔ شاید ایسا اس لیے بھی ہے کہ میں ایک اسکول ٹیچر ہوں۔
ٹی ایس اے، سیکیورٹی کا دکھاوا یا ’سیکیورٹی تھیٹر‘
نائن الیون کے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹی ایس اے کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ لیکن اس کے بنائے گئے ضابطوں اور طریقوں اور ان کے مؤثر ہونے پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ ٹی ایس اے کو اپنے اقدامات کے لیے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
فضائی میزبان اور فضا میں سیکیورٹی کے لیے تعینات ہونے والے ایئر مارشلز نے 2013 میں ٹی ایس اے کی جانب سے پرواز پر فولڈنگ نائف لے جانے کی اجازت دینے کی مخالفت کی تھی۔
اسی طرح ٹی ایس اے نے جب ایئرپورٹس پر ایسے اسکینر لگائے تھے جن سے گزرنے پر حقیقت کے قریب تر تصویر نظر آتی تھی تو اس اقدام کی بھی شدید مخالفت ہوئی۔ جس کے بعد یہ اسکینر تبدیل کر دیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ جامہ تلاشی سے متعلق مسافروں کی شکایت بھی سامنے آتی رہی ہیں۔
سن 2015 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق خفیہ انسپیکشن میں ٹی ایس اے کے افسران 95 فی صد مواقع پر خفیہ ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد پکڑنے میں ناکام رہے۔
کانگریس کے ارکان نے اس سلسلے میں ٹی ایس اے کے ایڈمنسٹریٹر کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔ بعض ناقدین کی جانب سے ٹی ایس اے اقدامات کو سیکیورٹی کا دکھاوا یا ’سیکیورٹی تھیٹر‘ قرار دیا گیا۔
ٹی ایس اے کے سربراہ ڈیوڈ پیکوسک ادارے پر ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے گزشتہ برس 32 سو ہتھیار جہاز پر لے جانے سے روکے گئے۔
آزاد ماہرین بھی ٹی ایس اے کو سیکیورٹی کے لیے اہم قرار دیتے ہیں۔ البتہ ان کے نزدیک بہت سے پہلو ایسے ہیں جہاں ٹی ایس اے میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔
میٹروپولیٹن اسٹیٹ یونیورسٹی آف ڈینور میں ایوی ایشن سیکیورٹی کے مضمون کے استاد جیفر پرائس کا کہنا ہے کہ ناقدین ٹی ایس اے کو سیکیورٹی تھیٹر کہتے ہیں اگر ایسا ہے تو یہ اچھا سیکیورٹی تھیٹر ہے کیوں کہ نائن الیون کے بعد سے ہم ایسا کوئی حملہ روکنے میں کامیاب رہے ہیں۔