مکی آرتھر کی اسلام آباد آمد، کیا پاکستان ٹیم کی حکمتِ عملی تبدیل ہو سکتی ہے؟

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ مکی آرتھر اس وقت قومی ٹیم کے ساتھ اسلام آباد میں موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق انہیں ا س دو روزہ دورے پر قومی ٹیم کے ڈائریکٹر کی ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔

وہ 20 اپریل کو پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان سیریز کے چوتھے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں ٹیم کے ساتھ ہوں گے یا نہیں، اس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا ،البتہ یہ تو طے ہے کہ اس میچ کی حکمتِ عملی میں ان کا عمل دخل ہوگا۔

مکی آرتھر کا شمار پاکستان کے ا ن چند غیر ملکی کوچز میں ہوتا ہے جن کی زیر نگرانی گرین شرٹس نے کئی کامیابیں سمیٹیں، اس وقت وہ انگلش کاؤنٹی سیزن میں مصروف ہونے کی وجہ سے پاکستان ٹیم کے ساتھ ہیڈ کوچ منسلک نہیں ہورہے البتہ بطور ڈائریکٹر ان کے ہاتھ میں ٹیم کی کمان ہو گی۔

یاد رہے جب 2017 کی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جس میں پاکستان نے کامیابی سمیٹی، اس ٹیم کے ہیڈ کوچ بھی مکی آرتھر ہی تھے۔ انہی نے احمد شہزاد ، عمر اکمل اور وہاب ریاض کو ناقص کارکردگی کی وجہ سے ٹیم سے باہر کیا جب کہ فخر زمان، شاداب خان، حسن علی اور شاہین شاہ آفریدی جیسے کئی نئے کھلاڑیوں کو ٹیم میں موقع دیا۔


امکان ہے کہ سابق کوچ، ٹیم کے کپتان بابر اعظم کو ان کی ان غلطیوں سےآگاہ کریں گے جن کی وجہ سے پاکستان کو کئی میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے سامنے ٹیسٹ کیس کے طور پر نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ ہوگا جس میں گرین شرٹس کو چار رنز سے شکست ہوئی تھی۔

آئیے بابر اعظم کے چند ایسے فیصلوں پر نظر ڈالتے ہیں جن کے بارے میں اگر مکی آرتھر نے انہیں مشورہ دیا تو شاید قومی ٹیم کو سیریز میں اور آئندہ فائدہ ہوسکتا ہے۔


کیا مکمل فٹ نہ ہونے کے باوجود وکٹ کیپر محمدرضوان کو کھلانا درست فیصلہ ہے؟

جب 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کےسیمی فائنل میں محمد رضوان نے زخمی ہونے کے باوجود شرکت کی تھی تو ان کے مداحوں کی تعداد دگنی ہوگئی۔ ہر کسی نے اس اہم میچ میں ان کی شرکت پر انہیں داد دی تھی تاہم اس سیریز میں ا ن کی فٹنس پر سوالیہ نشان ہونے کے باوجود کپتان بابر اعظم ان کو ڈراپ کرنے کے حق میں نہیں تھے۔

نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں محمد رضوان نے ایک آسان اسٹمپ چھوڑا جب کہ دوسرے میچ کے دوران وہ فیلڈنگ کے دوران زخمی ہوکر گراؤنڈ سے باہر چلے گئے تھے اور متبادل کیپر محمد حارث نے وکٹ کیپنگ کے فرائض انجام دیے۔


ماہرین کے مطابق ایسے میں اگر تیسرے میچ میں محمد حارث کو بطور وکٹ کیپر بلے باز موقع دیا جاتا تو بہتر ہوتا لیکن کپتان اور مینجمنٹ نے محمد رضوان کو ہی فائنل الیو ن میں شامل کیا جو بیٹنگ کے ساتھ ساتھ کیپنگ میں بھی آف کلر نظر آئے۔

کیا پاکستان کو اس سیریز میں بھی بابر اعظم اور محمد رضوان کے اوپننگ پیئر کے ساتھ ہی جانا چاہیے؟

محمد رضوان صرف پاکستان کے وکٹ کیپر ہی نہیں، وہ ٹیم کے اوپننگ بلے باز بھی ہیں۔ ناقدین کو ان پراور بابر اعظم پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ دوونوں اپنی سلو بیٹنگ سے پاور پلے میں زیادہ رنز نہیں بناتے جس سے ٹیم کو نقصان ہوتا ہے۔


بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب اسکواڈ میں فخر زمان، صائم ایوب اور محمد حارث جیسے جارح مزاج اوپنرز موجود ہیں، بابر اعظم کا مسلسل ٹاپ آرڈر میں کھیلنے کا فیصلہ ان کےاور ان کے پارٹنر محمد رضوان کے لیے تو اچھا ہوسکتا ہے لیکن ٹیم کے لیے نہیں۔

ماہرین کے مطابق جب محمد رضوان اور بابر اعظم فیل ہوتے ہیں، تو مڈل آرڈر میں موجود بلے باز بھی پریشر میں آجاتے ہیں اور ایسا ہی ہوا سیریز کے تیسرے میچ میں جس میں پاکستان کو شکست ہوئی۔

کیا صائم ایوب کو مڈل آرڈر میں کھلانا درست ہے؟

آٹھویں پاکستان سپر لیگ میں اپنے 'نو لُک' شاٹ سے شہرت پانے والے صائم ایوب اس وقت قومی ٹیم کا حصہ تو ہیں لیکن انہیں مڈل آرڈر میں بیٹنگ کے لیے بھیجا جارہا ہے۔

مبصرین کے خیال میں یہ صائم ایوب کے ساتھ زیادتی ہے کیو ں کہ وہ ٹاپ آرڈر میں اپنی جارح مزاجی کی وجہ سے مشہور ہیں جس سے قومی ٹیم فائدہ نہیں اٹھارہی۔

کچھ مبصرین کے خیال میں اگر صائم ایوب کو ٹاپ آرڈر میں کھلایا جائے تو نہ صرف پاکستان کو اچھا اور تیز آغاز مل سکتا ہے بلکہ ٹیم کوایک ایسا بلے باز مل سکتا ہے جو جدید طرز کی کرکٹ کھیلتا ہو۔ سیریز کے پہلے میچ میں مڈل آرڈر میں آکر بیس سالہ بلے باز نے47 رنز کی ذمہ دارانہ اننگز تو کھیلی لیکن باقی دو اننگز میں وہ صفر اور دس رنزہی بناسکے۔

کیا تیسرے میچ میں بیٹنگ آرڈر کی غیر ضروری تبدیلی سے پاکستان کو نقصان ہوا؟

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلے گئے تیسرے ٹی ٹوئٹی انٹرنیشنل میچ میں مہمان ٹیم نے کامیابی تو صرف چار رنز سے حاصل کی،لیکن ایک موقع پر لگ رہا تھا کہ افتخار احمد شاید پاکستان کو میچ جتوانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

انہوں نے آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے 24 گیندوں پر 60 رنز بناکر اس کیوی بالنگ اٹیک کے آگے مزاحمت کی جس نے پاکستان کی پہلی 6 وکٹیں صرف 64 رنز پر گرادی تھیں۔ مبصرین کی رائے میں اگر کپتان بابر اعظم نے افتخار احمد سے پہلے آل راؤنڈرز شاداب خان، عماد وسیم اور شاہین شاہ آفریدی کو نہ بھیجا ہوتا تو اس سے میچ کا نتیجہ مختلف ہوتا۔


میچ کے دوران کمنٹری کرنے والے ماہرین کے خیال میں بابر اعظم چاہ رہے تھے کہ ایک وقت میں وکٹ پر دائیں اور بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے بلے باز ہوں لیکن اس منطق کے لحاظ سے بھی شاداب خان سے پہلے افتخار احمدکو بھیجنا چاہیے تھا۔

کیا پی ایس ایل کےسب سے کامیاب بالر احسان اللہ کو نسیم شاہ پر ترجیح دینی چاہیے تھی؟

گزشتہ ماہ پاکستان کو افغانستان کے ہاتھوں پہلے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ اور پھر سیریز میں شکست ہوئی تھی، اس سیریز میں مخالف بلے بازوں کو سب سے زیادہ پریشان احسان اللہ نے کیا جو پی ایس ایل کے بھی سب سے کامیاب بالر قرار پائے تھے۔

نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے پہلے دو میچز میں شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف کی موجودگی میں تو ان کی جگہ نہیں بنتی تھی لیکن جب دو میچز کے بعد نوجوان بالر زمان خان کو آرام کے غرض سے بٹھا کر نسیم شاہ کو کھلایا گیا، تو اس پر شائقین کوتعجب ہوا۔


اس حیرانی کی سب سے بڑی وجہ گزشتہ سیریز میں دونوں بالرز کی انفرادی کارکردگی تھی جس کے تین میچوں میں احسان اللہ چھ وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب بالر تھے جب کہ نسیم شاہ نے دو میچوں میں صرف ایک ہی وکٹ حاصل کی تھی۔

کیویز کے خلاف 17 اپریل کو کھیلے گئے میچ میں بھی نہ تو نسیم شاہ کوئی وکٹ لے سکے نہ ہی تین گیندوں پر کوئی رن بنانے میں کامیاب ہوئے۔