|
کراچی -- عالمی ریٹنگ ایجنسی 'فچ' کی پاکستان سے متعلق رپورٹ موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے جس میں پاکستان کی معاشی صورتِ حال کے ساتھ ساتھ سیاسی حالات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بعض حالیہ قانونی کامیابیوں کے باوجود عمران خان مستقبل قریب میں جیل ہی میں رہیں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی خطرات کے باعث اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ موجودہ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر پائے گی۔
'فچ' ایک امریکی ریٹنگ کمپنی ہے جو دنیا بھر کے سرمایہ کاروں، تاجروں اور دیگر کاروباری طبقات میں مقبول ہے۔ یہ ادارہ اپنی مختلف اشاعتوں میں مختلف کمپنیز کے علاوہ ممالک، خطوں اور دنیا بھر میں تجارتی، معاشی اور اقتصادی سرگرمیوں کے جائزے اور تجزیے پیش کرتا ہے۔
'فچ' کا اپنی رپورٹ میں مزید کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی کو درپیش خطرات کے منفی پہلو بہت زیادہ وزنی دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت بدستور کمزور ہے اور وہ بیرونی معاشی جھٹکوں کو برداشت کرنے کی زیادہ سکت نہیں رکھتی۔
'یہ جائزہ حیران کن ہے'
معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ ریٹنگ ایجنسی کے پلیٹ فارم سے سیاست اور حکومتی مدت پر تبصرہ کرنا حیران کن ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مفروضوں سے غیر ضروری طور پر ملک کے معاشی خطرات بڑھیں گے اور اس لیے متعلقہ حکام کو مناسب سطح پر یہ معاملہ اٹھانا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایسا عام طور پر نہیں ہوتا کیوں کہ یہ ان کا مینڈیٹ نہیں ہے اور کسی ملک کی سیاست کی سمت اور صورتِ حال پر عمومی تبصرے کے بجائے اپنی رپورٹس میں زیادہ تر اقتصادی تناظر میں بات کی جاتی ہے۔
لیکن سمجھ میں نہ آنے والی بات یہ ہے کہ انہیں سیاسی تبدیلی پر 'ٹائم لائن' کے ساتھ آنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور وہ اس بارے میں اس قدر مخصوص کیوں ہیں؟
معاشی ماہر عبدالعظیم اس رپورٹ میں ایسی کوئی حیران کن بات نہیں دیکھتے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حقیقت یہی ہے کہ اس وقت پاکستان کی معیشت کافی مشکلات سے دوچار ہے اور اس کی بنیادی وجہ سیاسی استحکام نہ ہونا اور سیاسی بے چینی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ خود حکومتی ایوانوں میں اس بارے میں کوئی یقین نظر نہیں آتا کہ حکومت اپنی مدت پوری کر پائے گی یا نہیں؟ اور خود پاکستان کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ آج تک کسی وزیرِ اعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔
'معاشی نمو میں اضافے کی توقع لیکن خطرات بھی منڈلا رہے ہیں'
رپورٹ میں اس توقع کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ ملک میں آئندہ سال مہنگائی کی شرح میں کمی آئے گی۔ شرح سود میں بھی کمی دیکھی جا سکتی ہے جب کہ معاشی نمو آئندہ سال بڑھ کر 3.2 فی صد رہنے کی توقع ہے۔
ان خطرات میں جاری کھاتوں کا خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے ایک فی صد تک بڑھنے کا خدشہ ہے جس کی بنیادی وجوہات تیل کی قیمتوں میں اضافہ یا زرعی شعبے میں توقع سے کم پیداوار ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب روپے کی قدر میں نسبتاً استحکام رہنے کی توقع ہے تاہم اس کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی کے خدشات بھی برقرار ہیں۔
'فچ' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں مہنگائی بڑھنے کی شرح کم ہونے سے رواں سال شرح سود 22 فی صد سے کم ہوکر 16 فی صد تک جانے کی توقع ہے۔ جب کہ 2025 کے اختتام پر یہ 14 فی صد تک ہو سکتی ہے۔
'فچ' نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی بھی پیش گوئی کی ہے کہ حزب اختلاف کے رہنما عمران خان مستقبل قریب میں بھی جیل ہی میں نظر آرہے ہیں۔ جب کہ اس بات کی بھی توقعات ہیں کہ آئندہ 18 ماہ میں مسلم لیگ (ن) ہی برسراقتدار رہے گی۔
اگر حکومت کی تبدیلی کی نوبت آئی تو عین ممکن ہے کہ متبادل حکومت کے طور پر ملک میں نئے انتخابات کے بجائے فوج کی حمایت یافتہ ٹیکنو کریٹس پر مشتمل حکومت آ سکتی ہے۔
موجودہ حکومت نے بجٹ میں مشکل ترین معاشی اہداف مقرر کیے ہیں تاہم اس بات کی توقع ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی جانب سے دیے گئے معاشی اصلاحات کے ایجنڈے کو کسی حد تک نافذ کرنے میں بھی کامیاب رہے گی۔
پاکستان میں سیاسی خطرات آئندہ دو سالوں میں کافی زیادہ رہنے کا امکان
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی حامی جماعتوں کی مدد سے نئی مخلوط حکومت فروری میں قائم ہو گئی۔ لیکن تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی اچھی انتخابی پرفارمنس اور زیادہ نشستیں حاصل کرنے سے یہ بات عیاں ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت کے خلاف عدم اطمینان کافی زیادہ موجود ہے۔
SEE ALSO: حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی سخت شرائط کیسے پوری کرے گی؟رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں پارلیمانی انتخابات 2029 میں ہونے والے ہیں۔ تاہم اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ ملک میں اس سے قبل ہی حکومت تبدیل ہو جائے۔ پاکستان کے کسی وزیرِ اعظم نے آج تک اپنے عہدے کی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی ہے۔
پاکستان کے لیے مواقع اور حوصلہ افزا عناصر کیا ہیں؟
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی آبادی اس سال بڑھ کر 24 کروڑ 50 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اس قدر بڑی آبادی ملک کے اندر بڑی مارکیٹ تشکیل پاتی ہے جو معاشی سرگرمیوں کے لیے اہم ہے۔
اسی طرح پاکستان کے جغرافیے کے باعث چین کی سرمایہ کاری ملک کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی حکومت اور فوج کے بیجنگ اور واشنگٹن کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور ملک کا جغرافیائی محل وقوع بھی اس طرح کا ہے جس کے باعث عالمی طاقتوں کے مفاد میں ہے کہ اس خطے میں استحکام ہو۔ فوج نے کامیابی کے ساتھ ملک کے بڑے حصے پر استحکام برقرار رکھا ہوا ہے اور تشدد عام طور پر انہی علاقوں تک محدود رہا ہے جو معاشی طور پر پسماندہ ہیں۔
معاشی ماہر عبدالعظیم کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ بجٹ کی کوئی خاص معاشی سمت کے بجائے یہ بجٹ محض آئی ایم ایف سے ڈیل کو ممکن بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ملک کو درست معاشی ڈگر پر ڈالنے کے لیے صرف آئی ایم ایف کی ڈیل ہی کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے جامع معاشی پالیسی کی ضرورت ہے۔