پاکستان میں سیاسی جماعت پر پابندی کیسے لگائی جا سکتی ہے؟

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی عائد کرنے کے عندیے کے بعد پاکستان میں نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

بدھ کو ایک بیان میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ حکمراں اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی مشاورت سے کیا جائے گا۔

پاکستان میں ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کی جاچکی ہیں اور قوانین میں اس کا طریقۂ کار بھی موجود ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد کہتے ہیں کہ اگر کسی سیاسی جماعت پر ملک میں دہشت گردی پھیلانے کا الزام ہو یا خلاف قانون کام کرتی ہو تو وفاقی کابینہ اس بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رپورٹ طلب کرتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے یاسین آزاد کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت سیاسی جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں پر درج دہشت گردی کے کیسز کا جائزہ لیتی ہے اور شواہد کی روشنی میں تفصیلی رپورٹ یعنی سیاسی جماعت پر پابندی کے لیے چارج شیٹ مرتب کرنا ہوتی ہے۔

اُن کے بقول اگر وفاقی کابینہ کو لگتا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ملک دُشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے تو پھر کابینہ پابندی کی منظوری دیتی ہے، یہ معاملہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی جا سکتا ہے۔ دونوں ایوانوں سے اس پر قراردادیں منظور ہوتی ہیں کہ یہ دہشت گرد جماعت ہے، لہذٰا اس پر پابندی ہونی چاہیے۔

Your browser doesn’t support HTML5

فوجی تنصیبات پر حملے: کیا 'ریڈ لائن' کراس ہو گئی؟

یاسین آزاد کے بقول کابینہ اور پارلیمان سے منظوری کے بعد وزارتِ داخلہ نوٹی فکیشن جاری کر دے گی کہ مذکورہ سیاسی جماعت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

اُن کے بقول پابندی کے فیصلے پر وزارتِ داخلہ اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں بھی اپیل کی جا سکتی ہے۔ لہذٰا حتمی فیصلے کا اختیار سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس ہی ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس اگست میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں سنائے گئے فیصلے میں کہا تھا کہ عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی پر بیرون ممالک سے ممنوعہ فنڈز لینے کے الزامات ثابت ہوئے ہیں۔

اس فیصلے کے بعد وفاقی حکومت نے تحریکِ انصاف کے خلاف کارروائی کے لیے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 کے تحت ڈیکلریشن سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا لیکن یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔

کیا اس معاملےمیں الیکشن کمیشن کا بھی کردار ہے؟ اس پر یاسین آزاد کا کہنا تھا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے اراکین قومی اسمبلی میں ہوں تو پھر وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹی فکیشن کے مطابق مذکورہ جماعت کے اراکین کو الیکشن کمیشن ڈی نوٹیفائی کر دیتا ہے اور وہ رُکن اسمبلی نہیں رہتے۔

پاکستان میں یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کی بات ہو رہی ہے۔ چند برس قبل تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا تاہم ریاست کے ساتھ معاملات طے ہونے پر یہ عمل مکمل نہیں ہو سکا تھا۔

SEE ALSO: آرمی ایکٹ صرف عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے والوں پر لگے گا: وزیرِ قانون

پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کی تاریخ

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1954 میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگائی گئی۔

اس جماعت پر یہ الزام تھا کہ اس نے راولپنڈی سازش کیس میں ملوث ہو کر ملک دُشمنی کی اور اسی بنیاد پر ملک بھر میں جماعت کے ورکرز کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔

خیال رہے کہ سن 1951 میں پاکستان کے بعض فوجی افسران اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ اُنہوں نے اس وقت کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے سازش کی۔ اسے راولپنڈی سازش کیس کا نام دیا گیا۔

سازش کے الزام میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ سجاد ظہیر کو بھارت واپس بھجوا دیا گیا ۔ پابندی لگنے سے پہلے اس جماعت کے اراکین کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ تھی۔

نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی

دوسری بڑی سیاسی جماعت جس پر پابندی لگی وہ نیشنل عوامی پارٹی تھی۔ اس جماعت پر دو مرتبہ پابندی لگی ۔ پہلی مرتبہ 1971 میں یحییٰ خان اور پھر 1975 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورمیں پابندی لگی۔

اس جماعت پر بھی ملک دشمن سرگرمیوں کا الزام عائد کیا گیا ۔ نیپ پر سب سے بڑا الزام اس وقت کے سینئر وزیر صوبہ سرحد(موجودہ خیبر پختونخوا) حیات خان شیر پاؤ کے قتل کا تھا۔ وہ آٹھ فروری 1975 کو پشاور یونیورسٹی میں ایک تقریب کے دوران ہلاک ہوئے تھے اور اس دھماکے کا الزام نیپ پر عائد کیا گیا تھا۔

اس واقعے کے اگلےہی روز وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نےقومی اسمبلی میں دو بلوں کی منظوری حاصل کی جس میں ایک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی گرفتاری کا استثنٰی ختم کردیا گیا۔ دوسرے بل میں پولیٹکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم کرکے حکومت کو قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے والی جماعتوں کو خلاف قانون قرار دینے کا اختیار دےد یا گیا۔ اس قانون سازی کے اگلے روز 10 فروری 1975 کو نیشنل عوامی پارٹی پرپابندی عائد کردی گئی۔


اس وقت کی حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کو غیرآئینی قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھی دائر کیا جس میں نیپ کی اس وقت کی قیادت بشمول ولی خان کی طرف سے بینچ پر عدم اعتماداور ان کے اعتراضات کو مسترد کرنے پر انہوں نے عدالتی کارروائی میں حصہ نہیں لیا اور عدالت نے بھی ان پر پابندی کی توثیق کردی۔

پابندی کی شکار سیاسی مذہبی جماعتیں

پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں مذہبی و سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی۔ ان میں سے بعض ایسی جماعتیں بھی ہیں جو انتخابی نشان رکھتے ہوئے ماضی میں انتخابات میں بھی حصہ لیتی رہیں اور ان کے ارکان ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھی رہے ہیں لیکن ان پر پابندی عائد کردی گئی۔

ان مذہبی سیاسی جماعتوں میں سپاہ صحابہ پاکستان، سپاہ محمد پاکستان، تحریکِ جعفریہ پاکستان، ملتِ اسلامیہ پاکستان شامل ہیں۔ ان میں سے بعض جماعتیں قائدین اور نام بدل کر آج بھی سیاست کررہی ہیں لیکن پابندیوں کے باعث سیاست میں ان کا کردار محدود ہوا ہے۔