پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں 16 فروری کو پولیس چیف کے دفتر پر حملہ اس شہر میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کی9 برس بعد پہلی بڑی کارروائی تھی۔
ٹی ٹی پی کے تین خودکش حملہ آوروں نے پولیس چیف کے دفتر میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کی تھی۔ عمارت کو دہشت گردوں سے کلیئر کرانے کے لیے کئی گھنٹوں پر محیط آپریشن ہوا جس میں تینوں حملہ آور مارے گئے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے کراچی شہر میں اس سے قبل بڑا حملہ 2014 میں کراچی ایئرپورٹ پر کیا گیا تھا جس میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے جوابی کارروائی میں ٹی ٹی پی کے تمام 10 حملہ آوروں سمیت 29 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ٹی ٹی پی نے حکومتِ پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے بعد 30 نومبر 2022سے اب تک کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد، پشاور، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں 10 بڑے حملے کیے ہیں۔ ان میں سے آٹھ حملوں میں پولیس، فوج اور فرنٹیئر کانسٹبلری (ایف سی) کو نشانہ بنایاگیا۔
اس فہرست میں سب سے تباہ کن حملہ 30 جنوری کو پشاور پولیس لائنز کا تھا جس میں 100 سے زیادہ پولیس اہل کار ہلاک ہوئے تھے۔اگرچہ تنظیم کے ترجمان محمد خراسانی نےپشاور حملے کی تردید کی تھی مگر رہبری شوریٰ کے رکن عمر مکرم خراسانی اور اہم کمانڈر سربکف مہمند نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔
ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد آئی ہے مگر ماہرین کے مطابق یہ دراصل تنظیم کی ان پالیسیوں کابھی نتیجہ ہے جو 2018 کے وسط میں مفتی نور ولی محسود کے ٹی ٹی پی کی قیادت سنبھالنے کے فوراً بعد اختیار کی گئیں۔
اس اسٹوری میں ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کی پالیسیوں اور افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے اس پر اثرات کا ایک جائزہ شامل ہے۔
تحریک طالبان کے حالیہ عروج کا جائزہ
رواں ماہ 11 فروری کو ٹی ٹی پی کے اطلاعات و نشریات کے ذمے دار مفتی غفران نے 15 منٹ پر مشتمل ایک پشتو آڈیو پیغام میں جنگجوؤں پر تنظیم کی پالیسی واضح کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کے علاوہ کسی اور ہدف کو نشانہ بنانے سے سختی سے منع کیا تھا۔
مفتی غفران کے مطابق ٹی ٹی پی کی نئی پالیسی افغان طالبان کی طرز پر ہے جس طرح انہوں نے ایک نظریے کے تحت متحد ہو کر 'دشمن' کے خلاف لڑنے پر توجہ مرکوز رکھی۔
اس سے قبل ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے15 دسمبر 2020 کو اپنے ایک ویڈیو پیغام میں جنگجوؤں پرزور دیا تھا کہ ان کی کامیابی کے لیے افغان طالبان کی پالیسی مشعلِ راہ ہے جس کے لیے لازمی ہے کہ وہ بھی اپنی جنگ کو فقط پاکستانی سرزمین پر پاکستانی سیکیورٹی فورسز تک محدود رکھیں۔
نور ولی محسود نے افغان طالبان کے اقتدار میں آنے سے چار سال قبل نومبر 2017 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں تنظیم کی تاریخ پر ایک تنقیدی جائزے کے ساتھ ساتھ ساتھیوں کو پیغام دیا تھا کہ ایک حقیقی مرکزی نظم و پالیسی کے بغیر ریاست کے خلاف جنگ میں پیش رفت ناممکن ہے۔
SEE ALSO: پاکستان کی 'مبہم' پالیسی افغانستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ؟ان کی اس کتاب کے مطابق ٹی ٹی پی کا قیام دسمبر 2007 میں اسلام آباد کی لال مسجد پر سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے ردِعمل میں ریاست کے خلاف ایک منظم جنگ شروع کرنے کے مقصد سے لایا گیا تھا۔
صحافی سلیم شہزاد کی کتاب 'انسائیڈ القاعدہ اینڈ طالبان'کے مطابق ٹی ٹی پی کی داغ بیل افغانستان پر 2001 میں امریکی حملے کے بعد ہی ڈال دی گئی تھی۔
اُن کے بقول ریاست کی حامی عسکریت پسند تنظیموں کے منحرف جنگجوؤں نے افغان طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے لیے فوج و حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا تھا اور ریاست کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا۔
کتاب کے مطابق جنگجوؤں نے جنوبی وزیرستان کے قبائلی کمانڈر بیت اللہ محسود کی سربراہی میں اکھٹے ہو کر فوج و حکومت سے افغان طالبان کے اقتدار کے خاتمے اور ملک میں افغان طالبان کے حامی شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے ردعمل میں جنگ کا آغاز کیا جس کا ہدف اب پاکستان میں افغان طالبان کی طرز پر اسلامی حکومت کا قیام ہے۔
سال 2009 میں افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف افغان طالبان کے بڑھتے حملوں کے ساتھ پاکستان میں بھی ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آئی جو 2014 تک جاری رہے۔ اس کے بعد تحریک طالبان کا زوال شروع ہوا جس سے یہ تنظیم خاتمے کے دہانے تک پہنچ گئی تھی۔
ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستان کی فوج کے آپریشنز ، تابڑ توڑ امریکی ڈرون حملوں میں قیادت اور کمانڈروں کی ہلاکتیں اور ان ہلاکتوں سے پیدا ہونے والے قیادت کے فقدان کی وجہ سے داخلی خانہ جنگی میں یہ تنظیم 2014 میں کئی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کے ساتھ ماضی میں فرقہ وارانہ اور دیگر حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سے عام عوام کے ساتھ ٹی ٹی پی کے حامی حلقے بھی شدید ناراض تھے۔ اس کی ایک اہم مثال 16 دسمبر2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ تھا۔ اس حملے میں لگ بھگ 150 طلبہ کو قتل کیا گیا لیکن اس کے ردِعمل میں ٹی ٹی پی کے اتحادی افغان طالبان اور القاعدہ نے بھی اعلانیہ تنقید کی۔
یہی وجہ تھی کہ جون 2018 میں تنظیم کا سربراہ بننے کے بعد نور ولی محسود نے جلد ہی ستمبر میں تنظیم کے لیے نیا ہدایت نامہ جاری کیا جس میں جنگجوؤں کو سیکیورٹی فورسز کے علاوہ دیگر اہداف پر حملوں سے سختی سے منع کیا گیا۔
نور ولی محسود نے ماضی کے برعکس اس نئے ہدایت نامے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جس کے بعد ٹی ٹی پی کے حملوں میں عوام کے جانی نقصانات میں نمایاں کمی آئی۔
امریکہ کی ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی کی مئی 2021 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نور ولی محسود کے ٹی ٹی پی کےسربراہ بننے کے بعد جنگجوؤں کے عام شہریوں پر حملوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصانات میں تین سے چار گنا کمی آئی ہے۔
پشاور خودکش حملے کی علی الاعلان ذمے داری سے اجتناب کیوں؟
نور ولی محسود کی جانب سے تنظیم کو محتاط جنگی پالیسی پر سختی سے عمل درآمد کی اہم مثال پشاور کا حالیہ خودکش حملہ ہے جس میں ایک بڑی تعداد میں پولیس اہل کار مارے گئے مگر حملے کا مقام مسجد ہونے کی وجہ سے اس حملے کی رسمی طور پر ذمے داری قبول نہیں کی گئی۔
حملے کی علی الاعلان ذمے داری قبول نہ کرنے کی وجہ حملے سے چند روز قبل شائع ہونے والا تنظیم کا 70صفحات پر مشتمل لائحہ عمل برائے وزارت دفاع کے نام سے کتابچہ تھا۔ اس کتابچے میں جنگجوؤں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ستمبر 2018 کی پالیسیوں پر سختی سے عمل درآمد کریں گے۔ اس لیے اس حملے کی تمام تر اہمیت کے باوجود اس سے بظاہر لاتعلقی ظاہر کی گئی۔
مفتی نور ولی محسود کا دوسر ااہم اقدام ایک مؤثر مرکزی نظم اور پالیسی کے ساتھ منحرف دھڑوں کو تنظیم میں دوبارہ شامل کرنا تھا۔
اس مقصد کے تحت جولائی 2020 سے اب تک 23 مختلف چھوٹے بڑے گروہ ٹی ٹی پی میں دوبارہ شامل ہو چکے ہیں۔ ان دھڑوں میں نائن الیون کے بعد پاکستان میں القاعدہ کے منحرف ارکان کے علاوہ صوبہ خیبر پختوانخوا کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے مقامی عسکریت پسند گروہ بھی شامل ہیں۔
SEE ALSO: دہشت گرد کراچی پولیس ہیڈ آفس میں داخلے میں آخر کیسے کامیاب ہوئے؟تنظیم کے سینئیر رہنما قاری محمد شعیب باجوڑی نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ نور ولی محسود نے امیر منتخب ہونے کے ساتھ منحرف دھڑوں سمیت تمام ریاست مخالف جنگجوؤں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا تھا جس میں دو سال کی کوششوں کے بعد 2020 میں کامیابی حاصل ہوئی۔
اسی طرح ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی طرز پر ایک منظم سیاسی و عسکری قوت بنانے کی کوششوں سے پاکستان میں اس تنظیم کے حملوں کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ ان حملوں میں عام شہریوں کے جانی و مالی نقصانات کے برعکس فقط سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی کی تحقیق کے مطابق2018 کے مقابلے میں 2020 کے دوران ٹی ٹی پی کےحملوں کی تعداد 71 سے بڑھ کر 149 ہو گئی ٹھی اور ان دو سالوں میں جنگجو تنظیم نے ایک مہینے میں اوسط چھ سے 12 حملے کیے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
امریکی ادارہ برائے امن سے وابستہ سینئر تجزیہ کار اسفندیار میر کے مطابق ٹی ٹی پی کی بڑھتی عسکری و سیاسی قوت کی ایک اہم وجہ افغانستان میں طالبان کے زیرِسایہ ان کے ٹھکانے اور تنظیم کو افغان طالبان کی حاصل وسیع حمایت ہے۔
ان کے بقول، حکومتِ پاکستان کے ساتھ شدید نفرت کی وجہ سے طالبان کے علاوہ غیر طالبان افغان حلقوں میں بھی ٹی ٹی پی کے لیے پذیرائی پائی جاتی ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے سیکیورٹی معاملات پر عبور رکھنے والے اور کوئنسی تحقیقاتی ادارے سے وابستہ محقق آدم وائنسٹین کے مطابق عام شہریوں پر حملوں کے مقابلے میں پولیس کے نقصانات پر عوامی ردعمل کم ہوتا ہے جس کا فائدہ ٹی ٹی پی اٹھا رہی ہے۔
اُن کے بقول وہ پولیس کو نشانہ بنا کر ریاست کی عمل داری کو ناکام دکھانا چاہتی ہے۔
ٹی ٹی پی کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے میں امریکی ڈرون حملوں کا اہم کردار رہا ہے مگر وائنسٹین سمجھتے ہیں کہ اب ٹی ٹی پی کے خلاف ڈرون حملوں کا استعمال ممکن نہیں رہا تاوقتیکہ ٹی ٹی پی امریکی مفادات یا اس کے شہریوں کو نشانہ نہیں بناتی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے وائنسٹین نے کہا کہ امریکہ کے لیے ٹی ٹی پی کے بجائے عالمی شدت پسند تنظیم داعش اور القاعدہ زیادہ ترجیح ہیں۔پاکستان کے پاس دو ہی راستے ہیں ایک یہ کہ وہ افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کے لیے مجبور کرے یا خود افغانستان کے اندر اس تنظیم کی قیادت اور ٹھکانوں کو نشانہ بنائے۔
SEE ALSO: پاکستان میں چین کا قونصلر سیکشن بند؛ 'سیکیورٹی سے متعلق بیجنگ کے خدشات جائز ہیں'واشنگٹن پالیسی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سینئر تجزیہ کار اور جہادی تنظیموں پر وسیع تحقیق کرنے والے آرون زیلن سمجھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی وجہ سے پاکستان اور افغان طالبان کے دیرینہ تعلقات ایک نازک موڑ پر ہیں۔
ان کے بقول پاکستان کی ٹی ٹی پی کے خلاف افغانستان کے اندر کسی بھی قسم کی کارروائی طالبان حکومت کے لیے یقینی طور پر مشکلات کا سبب بنے گی۔
افغانستان میں طویل عرصہ گزارنے والے اور افغان طالبان کی اندرونی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر امریکی تجزیہ کار اینڈریو واٹکن کے مطابق پشاور حملے پر افغان طالبان کے رسمی مؤقف سے مستقبل قریب میں ٹی ٹی پی کے لیے ان کی حمایت میں کمی کے کوئی آثار نہیں ملتے۔
اُن کے بقول اس حملے کے بعد پاکستانی حکومت کے ردعمل میں افغان طالبان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان پر بھی شدید تنقید کی تھی اور افغانستان پر تحریکِ طالبان کی حمایت کا الزام مسترد کرتے ہوئے مسئلے کی جڑ پاکستان کو ہی قرار دیا تھا۔
القاعدہ اور داعش پر نظر رکھنے کے لیے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے مانیٹرنگ کمیشن کے سربراہ ایڈمنڈ فٹن براؤن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ٹی ٹی پی کے معاملے میں افغان طالبان ایک پیچیدہ صورتِ حال سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے یا ٹی ٹی پی کے ساتھ رشتہ قائم رکھنے میں سے کس کا انتخاب کریں۔
ان کے بقول طالبان کو خدشہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کسی سخت اقدام سے ماضی کی طرح ان کے جنگجوں تنظیم سے الگ ہو کر داعش میں شامل ہو سکتے ہیں، ایسی صورت میں اسلام آباد کے لیے ٹی ٹی پی کے خلاف سخت کارروائیاں ہی واحد آپشن رہ جاتا ہے۔
براؤن کے مطابق پاکستان کی یکطرفہ کارروائی کی صورت میں اسلام آباد اور کابل کے تعلقات بگڑنے کا اندیشہ ہے۔