کراچی کے سابق پولیس آفیسر راؤ انوار نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں امریکی محکمہ خزانہ کے غیر ملکی اثاثوں پر کنٹرول کرنے والے دفتر کی جانب سے گزشتہ روز انسانی حقوق کے عالمی دن پر اپنے خلاف عائد کئے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے، جس میں راو انوار کا نام انسانی حقوق پا مال کرنے والے چھ ملکوں کے اٹھارہ افراد میں شامل کیا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق راو انوار نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ وہ امریکی حکومت کے خلاف اس معاملے پر قانونی کارروائی اور پاکستان میں امریکی سفارت خانے کو خط بھی لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، کیونکہ اس سے ان کی شہرت کے ساتھ ان کے ملک کو بھی رسوا کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کیا جارہا ہے۔جو لوگ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے بے گناہ افراد کو قتل کیا، ان میں سے کسی ایک بھی شخص کے اہل خانہ نے ان کے خلاف شکایت درج نہیں کرائی کہ ان کے پیارے کو کسی جعلی پولیس مقابلے یا کسی لالچ میں مارا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک پولیس فورس کے افسر کے طور پر دہشتگردوں سے لڑتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت کو اس الزام کو ثابت کرنا ہوگا اور اگر یہ ثابت نہیں ہوتا تو امریکہ کو معافی مانگنی پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’’اگر کسی جرائم پیشہ شخص سے میرا تعلق ثابت ہوجائے تو مجھے چوراہے پر کھڑا کرکے گولی مار دی جائے‘‘۔۔۔
راؤ انوار کے بقول، ’’امریکہ کے اس اقدام کا مقصد کشمیر کے معاملے سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے جو سراسر زیادتی ہے‘‘۔
کراچی سے ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق، راؤ انوار کے خلاف درج قتل کیس میں کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا، سوائے اس کے وہ بیرون ملک نہیں جا سکتے کیونکہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے۔ راو انوار کے خلاف نقیب اللہ سمیت 5 افراد کے قتل کا مقدمہ کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت میں تقریبا 23 ماہ سے زیر سماعت ہے، جس میں راؤ انوار تین ماہ مفرور رہنے کے بعد گذشتہ سال مارچ میں گرفتار ہوا تھا جس کے بعد انہیں عدالت سے ضمانت مل گئی تھی۔
تاہم، سندھ ہائی کورٹ میں ایک سال سے اس کیس میں ملزمان کی ضمانت کی منسوخی کے لئے اپیلیں زیر سماعت ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ راؤ انوار کے خلاف کی گئی پولیس انکوائری میں یہ بات ثابت ہوئی کہ انہوں نے سیکڑوں جعلی پولیس مقابلوں میں مبینہ طور پر 444 بے گناہ افراد کو قتل کیا۔
ادھر سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکن اور وکلا یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ مہینوں گزر جانے کے بعد بھی اس کیس میں قتل ہونے والوں کو انصاف کیوں نہیں مل سکا ہے۔ نقیب اللہ کیس میں مدعی کے وکیل صلاح الدین پنہور ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ سابق ایس ایس پی راؤ انوار اب بھی پولیس پروٹوکول میں عدالت میں آتے ہیں اور ان کے خیال میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سیاسی تعلقات کے باعث گہرا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ مقدمے میں کئی گواہ اپنے بیان سے منحرف ہوچکے ہیں، جبکہ وہ اس بات کی بھی طاقت رکھتے ہیں کہ کیس میں اپنے خلاف مختلف شواہد کو ضائع کروا دیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ کیس میں سرکاری وکلا کے ساتھ ملزمان کے وکلا نے شروع میں تاخیری حربے بھی اپنائے۔ تاہم، اب کیس کی شنوائی جلد مکمل ہونے کی توقع ہے۔
انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے بعض کارکنوں اور وکلاء کا خیال ہے کہ راؤ انوار کو اب بھی ریاستی اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے اور انہیں مختلف مواقع پر مکمل سہولت فراہم کی گئی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی جانب سے انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جا رہا۔ تاہم، دوسری جانب ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں عدالتی عمل پر مکمل بھروسہ ہے اور انہیں یقین ہے کہ وہ مقتولین کے خاندانوں کے ساتھ انصاف ضرور کرے گی۔
سندھ کی صوبائی حکومت کے ترجمان نے معاملہ عدالت میں ہونے کی وجہ سے اس بارے میں کوئی ردعمل ظاہر کرنے سے گریز کیا۔
دوسری طرف سابق ایس ایس پی راؤ انوار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثوں سے متعلق ایک درخواست قومی احتساب بیورو کو بھی ارسال کی گئی تھی جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ راؤ انوار نے منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسے ملک سے باہر بھیجے، دہشتگردی اور بھتے سے حاصل پیسوں سے ملک کے اندر اور باہر کاروبار اور پراپرٹی بنائی، جبکہ مبینہ طور پر لوگوں کو اغوا اور قتل کرنے کے خوف سے بھی پیسے اکھٹے کئے۔۔ لیکن، اس بارے میں نیب کی جانب سے اب تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔
راؤ انوار کا نام انسانی حقوق پامال کرنے والوں کی امریکی فہرست میں کیسے آیا؟
گزشتہ روز ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار نے کہا تھا کہ پاکستان پولیس کے سابق افسر راؤ انوار کو انسانی حقوق پامال کرنے والے افراد کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ کے غیر ملکی اثاثوں پر کنٹرول کرنے والے دفتر نے انسانی حقوق کے عالمی دن پر چھ ملکوں کے 18 افراد کے خلاف کارروائی کی ہے۔
امریکی عہدے دار نے کہا کہ راؤ انوار پر الزام ہے کہ انہوں نے بارہا شہریوں کی ماورائے عدالت ہلاکتوں میں حصہ لیا۔ راؤ انوار نے کراچی کے ضلع ملیر میں 190 پولیس مقابلوں میں حصہ لیا، جن میں 400 سے زائد افراد کی ہلاکتیں ہوئیں۔ ان میں سے متعدد ماورائے عدالت قتل کے زمرے میں بتائے جاتے ہیں، جن میں نقیب اللہ محسود کا قتل بھی شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ راؤ انوار پولیس اور جرائم پیشہ افراد کے ایک نیٹ ورک کے انچارج تھے، جو مبینہ طور پر بھتہ خوری، زمینوں پر ناجائز قبضے، منشیات اور قتل میں ملوث تھا۔
ایک بیان میں امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منوچن نے کہا تھا کہ امریکہ بے گناہ سویلنز کے خلاف اذیت، اغوا، جنسی تشدد اور قتل کے واقعات برداشت نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے اور جرم میں ملوث افراد اور سہولت کاروں کو پکڑنے میں مدد دی جائے گی۔
پشتون تحفظ تحریک کی جانب سے ملک گیر ہڑتال کے نتیجے میں راؤ انوار کو مارچ 2018ء میں نقیب اللہ محسود قتل کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تین ماہ قید رہنے کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔