پاکستان میں برسرِ اقتدار مسلم لیگ(ن) کے رہنما سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ لاپتا افراد تو گمشدہ ہوتے ہی تھے، اب لاپتا افراد سے متعلق بل ہی غائب ہو چکا ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جبری طور پر گمشدہ افراد کو فوری بازیاب کیا جائے۔ دوسری جانب پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فوج کی قیادت کو لاپتہ افراد کے معاملے پر گہری تشویش ہے اور وہ اس طرح کی مشق کی مذمت کرتی ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے پاکستانی عدالت کے فیصلہ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا فیصلہ ایک بہترین موقع ہے کہ حکومت ثابت کرے کہ وہ جبر گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے اور عوام کی حفاظت کے لیے قوانین پر عمل پیرا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام بشمول قانون نافذ کرنے والے ادارے اور فوجداری عدالتی نظام ، ان جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے سیاسی عزم ظاہر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب چند روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ جب اس بات کے واضح شواہد ہوں کہ کسی شخص کو جبری لاپتا کیا گیا ہے تو یہ ریاست کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ لاپتا شخص کو بازیاب کرائے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریشیا گوسمین نے ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ سے جبری لاپتا کیے گئے سینکڑوں افراد کی رہائی کی امید پیدا ہوئی ہے۔
پیٹریشیا کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ماضی میں عدالتوں کی طرف سے دیے گئے فیصلوں کی سیریز کا حصہ ہے. البتہ ایسے فیصلے سیکیورٹی اداروں کو خفیہ حراست اور جبری لاپتا کرنے سے نہیں روک سکے۔ مارچ 2011 سے اب تک جبری گمشدہ افراد کے حوالے سے قائم کمیشن کو اب تک آٹھ ہزار 463 شکایات موصول ہوئی ہیں جب کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس ے کہیں زیادہ ہے۔
’پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے شکار افراد محروم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے شکار افراد عام طور پر معاشرے کے محروم طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص جبری طور پر لاپتا ہوجائے تو اس پر تشدد یا اس کے ماورائے عدالت قتل کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بھی محسوس کیا ہے کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے مارچ 2011 میں قائم ہونے کمیشن متاثرہ افراد کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ کمیشن ان جبری گمشدگیوں کے ذمہ داران کو انصاف کی فراہمی کے بجائے اب تک ایک تہائی افراد کو بازیاب کراسکا ہے اور کسی بھی ذمہ دار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکام بشمول قانون نافذ کرنے والے ادارے اور کریمنل جسٹس سسٹم ان گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے سیاسی عزم ظاہر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پیٹریشیا گوسمین نے کہا کہ جنوری 2021میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا تھا کہ کسی شخص کے جبری لاپتا ہونے پر وزیرِ اعظم اور کابینہ ذمہ دار ہوتے ہیں جب کہ اکتوبر 2017 میں سپریم کورٹ نے وزارتِ داخلہ کو تمام لاپتا افراد سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے کا کہا تھا لیکن اس کے باوجود جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
’ کسی کو جبری طور پر لاپتا کرنا جرم ہے‘
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج ہماری انسانی حقوق سے متعلق کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا جس میں جبری لاپتا افراد سے متعلق بل کے بارے میں بھی پوچھا گیا جس پر آگاہ کیا گیا کہ اس بل کو دوبارہ حاصل کیا جا رہا ہے۔
مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ کسی کو جبری طور پر لاپتا کرنا ایک جرم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کی مذمت کی جاتی ہے۔ کسی بھی شخص کے خلاف ایسا اقدام کرنا کسی بھی صورت ناقابل قبول ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ پوری سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی نے اسے تسلیم کیا ہے۔
عدالتی فیصلے کے حوالے سے مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہےکہ قانون کے مطابق ہر شخص کا تحفظ کیا جائے۔ اگر کسی کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گمشدہ افراد کا بل لاپتا
جبری لاپتا افراد کے حوالے سے بل کے غائب ہونے کے بارے میں مشاہد حسین سید نے کہا کہ کمیٹی کے بدھ کو اجلاس میں اس بارے میں مکمل ہدایات جاری کی گئیں کہ فوری طور پر بل کو کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے۔ پہلے تو لوگ گم ہوتے تھے اب بل بھی غائب ہوگیا۔ اسے فوری طور پر کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس بات کی حکومت اور اپوزیشن تمام ارکان نے حمایت کی ہے۔
لاپتا افراد کے کیسز لڑنے والی وکیل ایمان زینب مزاری ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں بہت سی درخواستیں اعلیٰ عدالتوں میں دائر کی گئی ہیں۔ 2006 میں سپریم کورٹ میں اس بارے میں کیس کی سماعت سے لے کر آج تک کچھ بھی نہیں بدلا۔ حکومت کوئی بھی ہو کسی بھی حکومت کی طرف سے کوئی سیاسی عزم ظاہر نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ اس بارے میں اکثر بات بھی نہیں کی جاتی۔ موجودہ دور میں بھی وزیرِ داخلہ ایک انٹرویو میں کہہ رہے تھے کہ مجبوری ہے۔ ایسی کونسی مجبوری ہے کہ عدالتیں فیصلے دے رہی ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہو رہا۔ لہٰذا جب تک سیاسی جماعتیں اس بارے میں پرعزم نہیں ہوں گی اس وقت تک یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔
پاکستان کی حکومت کا ردعمل:
وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے پاکستان کے ایک نجی ٹیلی ویژن کے پروگرام ’ سپاٹ لائٹ‘ میں منزہ جہانگیر کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ پاکستا ن کی فوج کی قیادت کو لاپتہ افراد کے معاملے پر تشویش ہے اور وہ خود نہیں چاہتے کہ شہریوں کا لاپتہ ہونے کی مشق جاری رہے۔تاہم ان کے بقول اس ضمن میں کچھ ایسے مسائل ہیں جن پر کھلے بندوں بات نہیں ہو سکتی کیونکہ اس سے متاثرہ خاندانوں کو تکلیف پہنچ سکتی ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا جبری گمشدگیوں سے متعلق پارلیمنٹ کے اندر لایا جانے والا بل بھی لا پتہ ہو چکا ہے تو وزیرداخلہ نے کہا کہ ’ ایسے تمام بل گم ہو جائیں گے کیونکہ وہ مسائل کا حل فراہم نہیں کرتے‘