|
پاکستان کا شمال مغربی علاقہ برسوں سے عسکریت پسندوں کے حملوں سےدوچار ہے، جس کی وجہ سے خطے کے کچھ سویلین رہنماؤں اور پاکستانی فوج کے درمیان تناؤ پیدا ہو ا ہے۔
گزشتہ ماہ، فوج نے اعلان کیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف کیا جانے والا آپریشن "عزمِ استحکام ‘ عسکریت پسندوں کے خلاف کیا جانے والا کریک ڈاؤن ہوگا، لیکن ایک دہائی کی اسی طرح کی مداخلتوں کے بعد، علاقے کے بہت سے باشندے اس اعلان پر چوکنا ہیں۔
اس ہفتے، ایک شخص نے لڑکیوں کے ایک ایسےاسکول کے ملبے کے پاس کھڑے ہوکر ایک ویڈیو ریکارڈ کی جسے عسکریت پسندوں نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع شمالی وزیرستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیر کی رات دھماکے سے اڑا دیاتھا۔ اس نے افسوس کا اظہار کیا کہ صوبہ کتنا پرتشدد ہو گیا ہے، خاص طور پر پاکستان کے دیگر، زیادہ پرامن حصوں کے مقابلے میں۔
SEE ALSO: شمالی وزیرستان میں ایک اور اسکول نذرِ آتش، وفاقی حکومت کی مشترکہ ٹاسک فورس بنانے کی تجویزان کا کہنا تھا، "ہم نے کبھی نہیں سنا کہ پنجاب میں کسی سکول کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔"
انہوں نے مزید کہا،پنجاب پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے اور ملک کی مسلح افواج کی اکثریت کا تعلق اسی صوبے سےہے۔
پاکستان کے ایوان زیریں میں خارجہ امور کی کمیٹی کے سابق چیئرمین محسن داوڑ نے ایکس پلیٹ فارم پر تباہ شدہ اسکول کی ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے تبصرہ کیا، "ریاست ساتھ کھڑی ہے، تباہی میں شریک ہے۔"
پیر کو لڑکیوں کے اسکول کی تباہی کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ پچھلے ہفتے خیبر پختونخواہ میں پولیس اسٹیشنوں، ایک اسپتال اور آرمی بیس پر حملے ہوئےتھے۔
برسوں کے پرتشدد واقعات کے بعد، مقامی پشتون آبادی سوال کر رہی ہے کہ ہمسایہ ملک افغانستان سے امریکی قیادت والی افواج کے انخلاء کے باوجود سرحدی علاقے میں امن کیوں نہیں لوٹا۔
بدھ کو ہی پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ وہ بحیثیت وزیرِ اعلیٰ صوبے میں کوئی آپریشن نہیں ہونے دیں گے۔
جمعے کو بنوں میں امن جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ بنوں کے عوام اور عمائدین نے حالات خراب ہونے سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بنوں امن کمیٹی کے تمام مطالبات صوبائی اپیکس کمیٹی نے منظور کرلیے ہیں۔
ان کا کہنا تھاامن ہمارا حق ہے۔ ہم اسے مانگیں گے نہیں بلکہ لیں گے۔
فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے پیر کے روز نئے حملے کی مخالفت کرنے والے گروپوں پر الزام لگایا کہ وہ مبینہ طور پر ایک ڈس انفارمیشن مہم کے ذریعے آپریشن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجوزہ عزم استقامت کا مقصد خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سرگرم عسکریت پسند گروپوں کو تباہ کرنا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایک 'غیر قانونی سیاسی مافیا' آپریشن عزم استحکام' کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
SEE ALSO: آپریشن عزمِ استحکام پر پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں کے تحفظات؛ معاملہ ہے کیا؟اُن کا مزید کہنا تھا کہ یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ یہ 'ضربِ عضب' آپریشن کی طرح ہو گا اور لوگوں کو بے دخل کیا جائے گا۔
علاقےکے عوام
افغان سرحد پر رہنے والے پاکستانی عسکریت پسندوں اور فوج کے درمیان پھنس گئے ہیں۔
ایک اور فوجی حملے کے امکان نے رہائشیوں کی طرف سے مخالفت کو جنم دیا ہے جو بڑے پیمانے پریونے والی اس نقل مکانی کو یاد کرتے ہیں جو اس وقت عمل میں آئی تھی جب فوج نے پچھلی دہائی میں دو بار پہلے حملوں کا آغاز کیا تھا۔
SEE ALSO: 'ضربِ عضب' کے چھ سال مکمل، متاثرہ خاندان اب تک مشکلات کا شکارعسکریت پسندوں کے جاری حملوں نے حقوق کی مقامی تحریک، ’پشتون تحفظ موومنٹ ‘کی حمایت میں اضافہ کیا ہے، جو وسیع پیمانے پر ایسی امن ریلیز کی قیادت کر رہی ہے جن کا مقصد پاکستان کی فوج کو دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے اسکے ٹریک ریکارڈ کے لیے جوابدہ بنانا ہے۔
یہ گروپ حکومت کی جانب سے عسکریت پسندوں کو نکال باہر کرنے اور حملوں کو ختم کرنے کے لیے خطے میں ایک اور فوجی آپریشن شروع کرنے کے منصوبے کی مخالفت کرنے والی ایک اہم آواز ہے۔
SEE ALSO: خیبرپختونخوا: پشتون قوم پرست جماعتیں انتخابی سیاست میں پیچھے کیوں رہ گئیں؟تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
وادی سوات میں مالاکنڈ یونیورسٹی کے ایک ماہر تعلیم مراد علی کہتے ہیں کہ خطے کی فوجی کارروائیوں کی تاریخ نے فوج کے منصوبوں پر بہت سے لوگوں کو شکوک و شبہات کا شکار کر دیا ہے۔
مرادعلی نے کہا، "یہ ایک حقیقت ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی میں (فوج) کو بھی خون پسینہ بہانا پڑا۔"
تاہم مراد علی کا کہنا ہے،کہ" پشتون آبادی میں بہت سے لوگ عسکریت پسندی کو ختم کرنے کے لیے فوج کی صلاحیت پر شک کرتے ہیں یا انہیں یہ شبہ ہے کہ "اچھے' اور 'برے' طالبان کے ساتھ اس آنکھ مچولی میں وہ ان کا ساتھ دے رہی ہے۔"
فوج کے ترجمان نے کہا کہ 2024 میں عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی میں سیکورٹی فورسز نے اب تک 137 فوجیوں کو کھو دیا ہے جن میں افسران بھی شامل ہیں۔
پختونخوا کی علاقائی اسمبلی کے ایک منتخب رکن، احمد کنڈی کہتے ہیں کہ گزشتہ برسوں کے دوران، قومی حکومت نے عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے کے بارے میں ملا جلا پیغام بھیجا ہے۔
کنڈی نے کہا، "ایک وزیر اعظم نے کہا تھاکہ عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھنے کا راستہ ہیں، اور دوسرے وزیر اعظم نے فوجی کارروائیوں کا انتخاب کیا، جبکہ ماضی میں ان کا نتیجہ نہیں نکلا تھا۔"
پشاور میں حمید اللہ نے اس رپورٹ میں تعاون کیا۔