|
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' نے جمعرات کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں اسرائیل پر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف کارروائیوں کا الزام عائد کیا ہے۔
'ہیومن رائٹس واچ' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کو زبردستی نقل مکانی پر مجبور کر کے اسرائیلی حکام 'زبردستی منتقلی کے جنگی جرم' کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ کارروائیاں ان علاقوں میں "نسل مٹانے کی تعریف پر بھی پورا اترتی دکھائی دیتی ہیں" جہاں فلسطینی واپس نہیں جا سکیں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہیومن رائٹس واچ کو معلوم ہوا ہے کہ جبری نقل مکانی بڑے پیمانے پر ہوئی ہے اور شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ منظم اور ریاستی پالیسی کا حصہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس طرح کے اقدامات انسانیت کے خلاف جرائم کی بھی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس رپورٹ پر اسرائیلی فوج یا وزارتِ خارجہ کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردِ عمل نہیں آیا ہے۔ لیکن اسرائیلی حکام ماضی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ فوجی کارروائیاں بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہیں۔
SEE ALSO: لبنان: حزب اللہ سے جھڑپوں میں اسرائیل کے مزید 6 فوجی ہلاکواضح رہے کہ 'لا آف آرمڈ کانفلکٹ' مقبوضہ علاقے سے شہری آبادی کی زبردستی نقل مکانی سے روکتا ہے۔ اس کی اسی صورت اجازت دی جاتی ہے جب شہری آبادی کو خطرہ ہو یا فوجی ضروریات کے تحت ایسا کرنا ناگزیر ہو۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ نقل مکانی شہریوں کو لڑائی سے محفوظ رکھنے یا فوجی مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ریسرچر نادیہ ہارڈمین نے رپورٹ کے ساتھ ایک نیوز ریلیز میں کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کو محفوظ رکھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتی جب وہ انہیں فرار کے راستوں پر مار دیتی ہے، نام نہاد سیف زونز پر بمباری کرتی ہے اور پانی، خوراک اور دیگر ضروریات کو بند کر دیتی ہے۔
ان کے بقول اسرائیل نے فلسطینیوں کی گھروں کو واپسی یقینی بنانے کی اپنی ذمہ داری کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور بڑے علاقوں میں تقریباً ہر چیز کو مسمار کردیا ہے۔
ہارڈمین نے نوٹ کیا کہ رپورٹ کے نتائج بے گھر ہونے والے غزہ کے لوگوں کے انٹرویوز، سیٹیلائٹ امیجز اور اگست 2024 تک عوامی رپورٹنگ پر مبنی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی خصوصی کمیٹی کی رپورٹ
ادھر اقوامِ متحدہ کی ایک خصوصی کمیٹی نے جمعرات کو کہا ہے کہ اسرائیل کی "جنگی حکمتِ عملی نسل کشی کی خصوصیات سے مطابقت رکھتی ہے۔"
کمیٹی نے اسرائیل پر "بھوک کو جنگ کے طریقے کار کے طور پر استعمال" کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔
خصوصی کمیٹی نے ایک حالیہ رپورٹ میں "بڑے پیمانے پر شہریوں کی ہلاکتوں اور جان بوجھ کر فلسطینیوں پر مسلط کیے جانے والے جان لیوا حالات" کی طرف نشاندہی کی ہے۔
یہ رپورٹ میں سات اکتوبر 2023 کے حماس کے مہلک حملے سے جولائی 2024 تک پیش آئے واقعات پر محیط ہے۔
کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ اقوامِ متحدہ کی بارہا اپیلوں، بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے احکامات اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود اسرائیل جان بوجھ کر موت، فاقہ کشی اور شدید زخموں کا باعث بن رہا ہے۔
رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ "اسرائیل بھوک کو جنگ کے طریقے کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور فلسطینی آبادی کو اجتماعی سزا دے رہا ہے۔"
رپورٹ میں کہا گیا ہے رواں سال فروری تک اسرائیلی فورسز نے غزہ کی پٹی میں 25 ہزار ٹن سے زیادہ دھماکہ خیز مواد استعمال کیا جو رپورٹ کے مطابق "دو ایٹمی بموں کے برابر" ہے۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ "پانی، صفائی اور خوراک کے نظام کو تباہ کرکے اور ماحول کو آلودہ کرکے اسرائیل نے خطرناک بحرانوں کا امتزاج تیار کیا ہے جو آنے والی نسلوں کو شدید نقصان پہنچائے گا۔"
غزہ اور لبنان میں فضائی حملے
فلسطینی طبی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے جن میں تین بچے بھی شامل ہیں۔
اے ایف پی نے رپورٹ کیا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کے گڑھ کے کچھ حصوں کو خالی کرنے کی اسرائیلی وارننگ کے بعد جمعرات کو بیروت کے جنوبی مضافات میں فضائی حملہ ہوا۔
اس حملے سے کچھ دیر قبل اسرائیل نے رہائشیوں کو اپنے گھر خالی کرنے کی وارننگ جاری کی تھی۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان افيخاي ادرعي نے ایکس پر ایک پوسٹ میں عمارتوں کے نقشوں کے ساتھ لکھا کہ آپ حزب اللہ کی تنصیبات اور مفادات کے قریب ہیں جن کے خلاف اسرائیلی فوج مستقبل قریب میں آپریٹ کرے گی۔
SEE ALSO: حزب اللہ اور حماس کمزور ہوئی ہیں لیکن ختم نہیں: امریکہدوسری جانب اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے جمعرات کو ٹیلی گرام ایپ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ایئر فورس نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے 140 سے زیادہ لانچرز کو تباہ اور دو بٹالین کمانڈرز اور ایک کمپنی کمانڈر کو ہلاک کردیا ہے۔
پوسٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران آئی ڈی ایف نے جنوبی لبنان میں فضائی اور زمینی کارروائیوں میں حزب اللہ کے 200 'دہشت گردوں' کو ختم کیا۔
اس سے قبل بدھ کو لبنان کی سرحد کے قریب لڑائی میں چھ اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ فوجی جنوبی لبنان میں لڑائی کے دوران ہلاک ہوئے۔
حزب اللہ کے خلاف 30 ستمبر کو زمینی کارروائی کے آغاز سے اب تک اسرائیل کے 47 فوجی مارے جا چکے ہیں۔
اسرائیل حماس کی لڑائی کے ساتھ ہی لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل پر حملوں جب کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے جنوبی لبنان میں ڈرون اور فضائی حملوں میں اضافے کے بعد ستمبر کے وسط میں یہ جنگ لبنان تک پھیل گئی۔
لبنان میں گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران 3200 سے زیادہ لبنانی مارے جا چکے ہیں۔
غزہ میں جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو حماس کے عسکریت پسندوں کی جانب سے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد ہوا تھا۔ اس حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ تقریباً 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا جن میں سے 100 اب بھی غزہ میں موجود ہیں جب کہ ایک تہائی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی کی جوابی کارروائیوں میں غزہ کے صحت حکام کے مطابق 43 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے ان ہلاکتوں میں حماس کے ہزاروں عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔
حماس اور حزب اللہ دونوں کو امریکہ دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں 'ایسوسی ایٹڈ پریس'، 'رائٹرز' اور 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔