پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں واقع انتہائی معتبر سمجھے جانے والے تعلیمی ادارے 'آئی بی اے' نے عالمی شہرت یافتہ ماہر معاشیات عاطف رحمٰن میاں کا طلبہ کے لیے آن لائن لیکچر اعلان کے چند روز بعد ہی منسوخ کر دیا۔
آئی بی اے کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے پوسٹ میں اس فیصلے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تھی۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے رابطہ کرنے پر ادارے کے ترجمان نے لیکچر منسوخ کرنے کی وجہ بتانے یا اس پر کسی قسم کے تبصرے سے انکار کیا۔
ماہر معاشیات عاطف میاں کو پانچ نومبر کو ادارے کے 'سینٹر فار بزنس اینڈ اکنامک ریسرچ' کے طلبہ سے 'پاکستان کی معاشی نمو کے گرنے کی وجوہات' پر اظہار خیال کرنا تھا۔
احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے عاطف میاں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری پیغام میں کہا کہ ان کا ورچوئل سمینار یونیورسٹی انتظامیہ کو شدت پسندوں کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کی وجہ سے منسوخ کیا گیا ہے۔
انہوں نے اپنے پیغام میں مزید لکھا کہ ان کی نیک خواہشات اور دعائیں آئی بی اے کے طلبہ کے ساتھ ہیں۔
بعض شدت پسند گروہوں کی اس آن لائن ایونٹ کے انعقاد پر دھمکیوں کی تصدیق آئی بی اے میں اہم عہدے پر تعینات عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کی ہے۔
ذرائع کے مطابق آن لائن سمینار کے منتظمین اور ادارے کو بعض نا معلوم افراد کی جانب سے دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔ جس کی بنیاد پر یہ آن لائن لیکچر منسوخ کرنا پڑا۔
'عاطف میاں کے خیالات سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں'
معروف اسکالر، کالم نگار اور مصنف خورشید ندیم کا کہنا ہے کہ یہ ایک منطقی بات بھی ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی۔ دنیاوی علوم کے حصول کے لیے کسی بھی عالم سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ جو اس علم کا ماہر ہے اور اس کا مسلمان ہونا لازم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں تو خود اسلام پر بھی غیر مسلموں کی تحقیقات اس قدر وسیع ہیں کہ اس سے استفادہ حاصل کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ عاطف میاں اپنے مذہب یا مسلک کی ترویج کرنے نہیں بلکہ ایک مکمل طور پر ایک سیکولر مضمون پر اظہارِ خیال کرنے آ رہے تھے۔ جن سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا اور اس سے استفادہ کرنے میں کوئی مذہبی تعلیمات نہیں روکتیں۔
انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس طرح کے نظریات کے پنپنے کی اصل وجہ معاشرے میں پائی جانے والی شدت پسندانہ سوچ اور وہ عناصر ہیں جو اظہار رائے کا احترام نہیں کرتے۔
خورشید ندیم کا کہنا تھا کہ اس خرابی سے نکلنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے زیادہ سے زیادہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کو فروغ دینا۔
SEE ALSO: مذہبی معاملے پر ریاست کا رویہ معذرت خواہانہ کیوں؟ان کے بقول مکالمے کی فضا کو ایک قدر کے طور پر اختیار کرنا ہوگا۔ جب تک یہ نہیں ہوگا اس وقت تک کچھ ادارے یا کچھ افراد یہ استحقاق رکھیں گے کہ وہ یہ طے کریں کہ لوگوں کو کیا سوچنا ہے اور کیا پڑھنا ہے۔ تو ایسے معاشروں کا انجام جامد ہو جانا ہی ہوتا ہے۔
ان کے خیال میں ایک کھلے معاشرے میں جمہوری روایات کے تحت دوسرے سے اختلاف رائے کا حق سب کے پاس ہونا ضروری ہے جس کے بغیر بات نہیں بن پائے گی۔
خورشید ندیم کے مطابق یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ شدت پسند عناصر اس وقت اس قدر مضبوط ہیں کہ ان کے پاس ہتھیار بھی ہیں۔ جن سے وہ آپ کی جان لے سکتے ہیں اور امن و امان کی صورتِ حال سب کے سامنے ہے۔
ان کے بقول ریاست شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کر پاتی اس لیے شہری خوف کی فضا میں جی رہے ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کئی ایسے واقعات میں شدت پسند نظریات سے اختلاف رکھنے والی آوازوں کو بدقسمتی سے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا اور پچھلی چند دہائیوں میں ایسے درجنوں واقعات رونما ہوئے۔ جس میں لوگ قتل کر دیے گئے یا انہیں وطن چھوڑ کر جانے پر مجبور کیا گیا۔
'واقعے سے احمدی برادری کے احساس محرومی میں اضافہ'
اس معاملے پر 'جماعت احمدیہ پاکستان' کے ترجمان سلیم الدین کا کہنا ہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں ان کی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو مذہبی اختلاف اور تعصب کی وجہ سے عدم برداشت کا نشانہ بنایا گیا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ عاطف میاں کو آن لائن سمینار سے خطاب کرنے پر دھمکیاں دینے سے دنیا بھر میں ان کی برادری کو پہنچنے والے نقصان سے زیادہ پاکستان کا تاثر ہی خراب ہو گا۔
ان کے بقول ایک جانب جہاں ادارے کے طلبہ قابل معاشی ماہر کی علمی گفتگو سے محروم رہ گئے ہیں تو دوسری جانب اس سے احمدی کمیونٹی سے منسلک افراد کے احساس محرومی میں بھی مزید اضافہ ہوا۔ جو پہلے ہی عدم برداشت کے رویوں کا سامنا کر رہی ہے۔
ان کے خیال میں اس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تقریر میں بتائے گئے راستوں پر عمل درآمد، اس کے تحت تمام مذہبی طبقات کو مساوی حقوق فراہم کرنے، معاشرے میں برداشت کا کلچر اور مذہبی رواداری کو فروغ دینے سے ہی ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عاطف میاں کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے سے قبل گوجرانوالہ میں پاکستان کے نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر کے ساتھ جو برتاؤ کیا گیا۔ اس سے بھلا ڈاکٹر عبدالسلام کے دنیا بھر میں مقام کو کیا فرق پڑا۔
سلیم الدین کے مطابق ایسا کرنے سے عالمی دنیا ہمارے اس مؤقف پر کیسے ردِ عمل کا اظہار کرے گی۔ جب ہم کہتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کو عدم برداشت کے رویوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
عاطف میاں کے متوقع خطاب پر مبینہ دھمکیوں پر صوبائی پولیس کے ایک افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں اس قسم کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی، جس پر کارروائی کی جائے۔
دوسری جانب اگرچہ حکومت کا مؤقف ہے کہ پاکستان میں تمام مذاہب اور مسالک کو مکمل مذہبی آزادی اور حقوق حاصل ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کے ادارے احمدیوں کے خلاف حکومت اور معاشرے کے بعض طبقات کی جانب سے امتیازی رویوں اور ان کے خلاف قوانین کے غلط استعمال کی اکثر نشان دہی کرتے رہے ہیں۔ جب کہ کئی مواقع پر انہیں جان سے بھی مار دیا گیا۔
SEE ALSO: حکومت کی پسپائی، معاشی مشیر کے طور پر عاطف میاں کی رکنیت ختمعاطف میاں کو اس سے قبل موجودہ حکومت کی 'اقتصادی مشاورتی کمیٹی' سے بھی نکالا گیا تھا۔ جب بعض مذہبی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے ان کی تعیناتی پر اعتراض کیا گیا تھا۔
عاطف رحمٰن میاں نے امریکہ سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے علاوہ دیگر علوم میں بھی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
عاطف میاں کا شمار 2014 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ایک رپورٹ میں ان 25 نوجوان معاشی ماہرین میں کیا گیا تھا جو عالمی معیشت کا مستقبل طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔