پاکستان میں احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ملک کے مختلف اہم عہدوں پر تعیناتیوں کی معلومات حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی ہے جسے عدالت نے نومبر کے آخری ہفتے میں سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں اس کیس سے متعلق حافظ احتشام کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ملک میں مختلف اہم سرکاری عہدوں پر تعینات عہدے داروں کی مکمل معلومات دی جائیں۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 19 اے اہم معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے۔ حقیقی مذہبی شناخت چھپانے والے افراد پر فوجداری مقدمات قائم کیے جائیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اگر اہم عہدوں پر تعینات افراد قادیانی ہیں اور وہ اپنا مذہب چھپا رہے ہیں تو ان کی شناخت ضروری ہے۔ لہذا قادیانیوں کی اہم عہدوں پر تعیناتیاں ظاہر کی جائیں۔
عدالت نے اس معاملے کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے حکم دیا کہ نومبر کے آخری ہفتے میں اس کیس پر سماعت کی جائے گی۔
جس کے بعد سماعت نومبر کے آخری ہفتے تک ملتوی کر دی۔
پاکستان میں قادیانی فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنا مذہب ظاہر کرنے پر بعض اوقات شديد خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا انہیں صرف مذہبی تفریق کی بنا پر اپنے عہدہ سے فارغ ہونا پڑتا ہے۔
حالیہ دنوں میں قادیانی فرقہ سے تعلق رکھنے والے ماہر معاشیات عاطف میاں کو وزیراعظم عمران خان نے اپنی اقتصادی ٹیم میں شامل کیا تھا، لیکن مذہبی حلقوں اور سوشل میڈیا پر شديد دباؤ کے باعث حکومت کو 48 گھنٹوں میں ہی اپنا یہ فیصلہ تبدیل کرنا پڑا جس کے بعد انہیں اس ٹیم سے الگ کر دیا گیا تھا۔
اگر عدالت ایسے افراد کی شناخت ظاہر کرنے کا حکم دیتی ہے تو اس سے ان کی زندگیوں اور ملازمتوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔