|
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں 10، 10 لاکھ روپوں کے مچلکوں کے عوض سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے اُنہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
دیگر کیسز کی وجہ سے ابھی بھی عمران خان جیل سے باہر نہیں آ سکیں گے۔
عمران خان کو یہ عدالتی ریلیف ایسے وقت میں ملا ہے جب انہوں نے آئندہ ہفتے 24 نومبر کو اجتجاج کی کال دے رکھی ہے جسے وہ 'فائنل کال' قرار دے رہے ہیں۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے رواں برس جولائی میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ کے دوسرے کیس میں گرفتاری ڈالی تھی۔
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے لیکن میڈیا میں پہلے سے ہے کہ ضمانت منظور ہو جائے گی۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میڈیا اگر سنسنی نہیں پھیلائے گا تو ان کا کاروبار کیسے چلے گا۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الزام ہے کہ عمران خان نے ذاتی مفاد کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا۔ چالان میں رسید پر بشریٰ بی بی کا نام ہے، لیکن اس چالان میں یہ واضح نہیں کہ مرکزی ملزم کون ہے؟
انہوں نے کہا کہ دو ملزمان ہیں اس میں دفعہ 109 میں کس کا کردار ہے کوئی واضح نہیں۔ مقدمے کا اندراج ساڑھے تین برس سے زائد تاخیر سے کیا گیا، کوئی جرم نہیں ہوا جس کیس میں جرم واضح نہ ہو تو کیس مزید انکوائری اور ضمانت کا ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ توشہ خانہ پالیسی 2018 کے سیکشن ٹو کے تحت تحائف لیے گئے جو قیمت کسٹم اور اپریزر نے لگائی ہم نے وہ قیمت دے کر وہ تحفہ رکھ لیا، آج انہوں نے ساڑھے تین سال بعد بیان بدلا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پی ٹی آئی حکومت کی توشہ خانہ پالیسی پر ریمارکس دیے کہ پچھلی حکومت توشہ خانہ کی تفصیلات نہیں بتاتی تھی، ہم پوچھتے تھے تو توشہ خانہ کی تفصیلات چھپائی جاتی تھیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ میں گزشتہ حکومت کہہ رہی تھی کہ توشہ خانہ کا کسی کو پتا نہیں ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں ایک صحافی نے توشہ خانہ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ حکومت نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ تحائف کی تفصیلات افشا ہونے سے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ اپریزر صہیب عباسی کہتے ہیں کہ مجھے عمران خان نے تھریٹ کیا جب کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کی تو ملاقات ہی صہیب عباسی سے کبھی نہیں ہوئی۔ کسٹم کے تینوں افسران نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم پر پریشر نہیں تھا، اگر پریشر نہیں تھا تو انہوں نے پھر صحیح قیمت کیوں نہیں لگائی۔
'ہم پتا نہیں کس دنیا میں رہ رہے ہیں'
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ بلغاری سیٹ توشہ خانہ میں جمع ہی نہیں کرایا گیا۔ ریاست کے تحفے کی کم قیمت لگوا کر ریاست کو نقصان پہنچایا گیا، عمران خان اور اُن کی بیوی دونوں نے فائدہ اٹھایا۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ عمران خان کو کیسے فائدہ ہوا؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جب بیوی کو فائدہ ملا تو شوہر کا بھی فائدہ ہوا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ "او پلیز، میری بیوی کی چیزیں میری نہیں ہیں، ہم پتا نہیں کس دنیا میں ہیں۔"
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا فردِ جرم مؤخر کرنے کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ بشریٰ بی بی کی اس عدالت نے توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور کی تھی۔
بشریٰ بی بی ٹرائل کورٹ میں پیش نہیں ہو رہیں جس کی وجہ سے فردِ جرم تاخیر کا شکار ہو رہی ہے، جیولری کا تخمینہ لگانے والے شخص کو بانی پی ٹی آئی کی جانب سے دھمکی لگائی گئی۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ جن تین کسٹمز افسران نے قیمت غلط لگائی اُن سے متعلق کیا کارروائی ہوئی؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ کسٹمز افسران سے کوتاہی ہوئی لیکن وہ کرمنل مس کنڈکٹ نہیں تھا۔ نیب کی جانب سے اُن افسران کے خلاف کوئی محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش نہیں کی گئی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ چلیں کہہ دیتے ہیں کہ وہ بہت اچھے لوگ ہیں۔
کیس کی سماعت مکمل ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے کہا کہ ضمانت کا غلط استعمال کیا تو اپنا فیصلہ واپس لے سکتے ہیں۔
اس کیس میں اگرچہ عمران خان کی ضمانت ہو گئی ہے، لیکن نو مئی کے حوالے سے لاہور میں درج چار مقدمات میں وہ گرفتار ہیں۔ اس لیے ان کی رہائی کا امکان نہیں۔
اس کے علاوہ اسلام آباد میں ان کے خلاف 62 مقدمات درج ہیں جن میں اب تک عمران خان کی گرفتاری نہیں ڈالی گئی۔ اگر عمران خان کو لاہور کے کیسز میں ریلیف مل بھی جائے تو اسلام آباد میں ان کے خلاف کیسز میں انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
کیا عمران خان کو ریلیف مل سکتا ہے؟
سینئر تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ امریکہ میں حالیہ انتخابات کے نتائج کے بعد اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے سے عمران خان کو ریلیف مل سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ درحقیقت ری پبلکنز کبھی بھی براہ راست ایسی کوئی بات نہیں کرتے۔ لیکن ہمارے حکمران کمزور ہیں اور ایسی باتوں سے پریشان ہو جاتے ہیں۔
اُن کے بقول اسی وجہ سے لگ رہا ہے کہ شاید عمران خان کو ریلیف مل سکتا ہے۔ سلمان غنی نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ 72 گھنٹوں میں اس کے اثرات زیادہ سامنے آئے ہیں اور اس وقت پشاور میں مذاکرات بھی ہو رہے ہیں۔
سلمان غنی کا کہنا تھا کہ پشاور میں ہونے والے مذاکرات کا کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے۔ مذاکراتی کمیٹی میں شامل علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر گوہر بھی مثبت شخصیات ہیں اور امکان ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوں گے۔
تجزیہ کار فاروق عادل کہتے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے عمران خان کے حق میں ماضی میں بھی فیصلے آتے رہے ہیں۔ لہذا ایک فیصلے کی بنیاد پر ایسا نہیں کہا جا سکتا کہ عمران خان کو ریلیف مل رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بات چیت کا شوشہ خود پی ٹی آئی نے چھوڑا ہے اور کہا ہے کہ ہم حکومت سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں، ماضی میں وہ حکومت کے ساتھ کوئی بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اب وہ حکومت کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔
چوبیس نومبر کو ہونے والے ممکنہ احتجاج کے لیے فاروق عادل کا کہنا تھا کہ احتجاج کے اعلان کے ساتھ ہی مذاکراتی کمیٹی کا بنایا جانا اور کہنا کہ مذاکرات کامیاب ہوئے تو ہم جشن منائیں گے۔ یہ سب عجیب سی باتیں پی ٹی آئی کی طرف سے آ رہی ہیں۔
اُن کے بقول ساتھ ہی ساتھ بشریٰ بی بی بھی کارکنوں اور رہنماؤں پر واضح کر رہی ہیں کہ جو اجتجاج میں شامل نہیں ہو گا اسے پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔